لیپڈ کی پہلی فلم2011 میں ریلیز ہونے والی پولیس مین تھی۔جس کی شوٹنگ کے دوران ہم سدیرات میں موجود تھے۔ یہ دراصل اسرائیلی کے ایلیٹ انسداددہشت گرد یونٹ کے اہلکاروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس یونٹ کا ایک اہلکار کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب ایک آپریشن میں کسی دہشت گر د کو مارنے کے وقت کئی بے قصور افراد اور بچے مارے جاتے ہیں، تو اس کینسر زدہ اہلکار کو تیار کیا جاتا ہے کہ وہ قصور اپنے سر لے تاکہ باقی اہلکار بری ہوجائیں۔ اسی طرح ایک ارب پتی کی بیٹی کے اغوا کا واقعہ پیش آتا ہے۔ آپریشن کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اغوا کا واقعہ کسی بائیں بازو کے ایک یہودی گروپ نے انجا م دیا تھا، جو ملک میں تبدیلی چاہتا تھا۔ یہ کسی فلسطینی کا کیا دھرا نہیں تھا، جن پر دہشت گردی کا الزام ڈالا جاتا ہے، بلکہ اسرائیل کے اندر کے سسٹم سے پریشان آوازیں تھیں۔ ان دنوں اس ملک میں ہزاروں لوگ زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ان کی دوسری فلم کنڈرگارٹن ، جو ایک استاد اور کم عمر طالب علم کی کہانی پر مبنی ہے، پر انکو 2014میں اسی فلم فیسٹیول میں بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ ملا۔ اس فلم نے دنیا میں 20سے زائد بین الاقوامی ایوارڈ جیتے۔ 2019 میں ان کی تیسری فلم سین نانیمز اسرائیل کے ایک سابق فوجی کے بارے میں ہے جو پیرس فرار ہو کر اپنے ماضی سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے 69ویں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں مقابلے میں بہترین ٹائٹل کاانعام حاصل کیا۔2016 میں، انہیں کانز فلم فیسٹیول کے انٹرنیشنل سیکشن کی جیوری کا رکن نامزد کیا گیا۔ وہ فرانس کا آرٹ کے شعبہ میں اعلٰی ترین اعزاز شیولیئر ڈیس بھی وصول کر چکے ہیں۔ اس نامور فلم ساز کے تبصرہ پر جس طرح حکومت بھڑک اٹھی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناکام فلمساز اگنی ہوتری کی فلم پر تنقید کو خود بھارت پر حملہ تصور کیا جائیگا۔ حیرت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کسی فلم پر ایک سند یافتہ فلم ساز کی تنقید کوبرداشت نہیں کر پارہی ہے۔ ایک کشمیری فلم میکر سنجے کاک کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ 1998 میں وندھاما میں 23 اور 2003 میں ندیمرگ میں 24 کشمیری پنڈت مرد و وعورتو ں کو قتل کیا گیا، مگر اس کے باوجود کم از کم 4000 کشمیری پنڈتوں نے کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ وہ کشمیر میں محفوظ بستیوں میں نہیں بلکہ پوری وادی میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ ابھی تک چین سے رہتے آئے ہیں۔ ان کے مسلمان پڑوسیوں کے لیے بھی زندگی آسان نہیں ہے ۔ کاک کے مطابق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ 1990 سے پہلے قبل وادی میں پانچ سے سات لاکھ کشمیری پنڈت رہتے تھے۔ جبکہ مردم شماری یا سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزا ر کے قریب تھی۔ کشمیر فائلز کے بعد جو طوفان بد تمیزی برپا ہوا، بتایا گیا کہ چار ہزار کے قریب پنڈت مارے گئے، مگر جموں و کشمیر پولیس کے مطابق ان کے پاس 89 مقتولین کا ریکارڈ ہے۔ بھارت کی وزارت داخلہ کے مطابق 1990 سے 2022تک مہلوکین کی تعداد 270 ہے۔ کشمیری پنڈتوں کی تنظیمیوں کے مطابق یہ تعداد سات سو کے لگ بھگ ہے۔ ایک طرف یہ فلم بتاتی ہے کہ اس نے ایک سچائی کو دنیا کے سامنے رکھا ہے اور یہ کئی سو افراد کی تحقیق پر مبنی فلم ہے، دوسری طرف اس کے پہلے ہی شارٹ میں ڈس کلیمر بھی دیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’یہ فلم… تاریخی واقعات کی درستگی یا حقیقت کا دعویٰ نہیں کرتی۔‘‘ مگر ایک ایسا ہیجان برپا کر دیا گیا کہ تھیٹر میں فلم دیکھنے کے بعد ا یک ویڈیو میں ایک شخص فلم ختم ہونے کے بعد چیختے ہوئے کہتا ہے کہ میری ہندو بھائیوں سے اپیل ہے کہ ان (مسلمانوں) سے ہوشیار رہیں، یہ کبھی بھی ہم پر حملہ کرسکتے ہیں۔ بقول سنجے کاک کشمیر کی تین دہائی کی حالیہ تاریخ میں سے چند خوفناک واقعات کو چن کر، اور انہیں ایک خوفناک داستان کی صورت میں پیش کرکے دوربین سے بڑھا چڑھا کر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک عسکری کمانڈر کو ایک عورت کو کچے ہوئے چاول نگلنے پر مجبور کرتا ہے، جس میں اس کے مقتول شوہر کا خون لگا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ 1990 میں بی کے گنجو کے وحشیانہ قتل کا حوالہ دیتا ہے۔ اسکو چاول کے ڈرم میں چھپتے ہوئے مار دیا گیا تھا۔ خون میں بھیگے ہوئے چاولوں کے ساتھ اسکو نیا موڑ دیا گیا۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد جب گنجو کے بھائی سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اس نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سنا اور نہ ہی اس کی بھابھی نے کبھی اس کا ذکر کیا تھا۔ فلم میں دکھایا گیا کہ راشن ڈپو میں، پریشان حال کشمیری پنڈت خواتین کے ایک گروپ کو ان کے مسلمان پڑوسیوں نے اناج تک رسائی سے انکار کر دیا ۔یعنی کشمیری مسلمانوں پر نسلی و فرقہ وارانہ منافرت کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو اپنے ناظرین کو ایک تو شدید تشدد کے مناظر سے دوچار کرتی ہے، دوسرا تھیٹر میں ہندو قوم پرست جماعتوں کے نمائندے ایک ہیجا ن برپا کردیتے ہیں۔ کاک کا کہنا ہے کہ اگرچہ خوفناک سانحات کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے، لیکن زیادہ تر کشمیری پنڈت خاندانوں کو ان کے مسلمان پڑوسیوں نے دھوکہ نہیں دیا۔ مندروں اور گھروں میں توڑ پھوڑ یا لوٹ مار نہیں کی گئی۔ اگرچہ میڈیا، بیوروکریسی اور پولیس اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہے ہوں گے، جیسا کہ فلم بتاتی ہے ، مگر پوری آبادی پنڈتوں کے ظلم و ستم میں ملوث نہیں تھی۔ یہ صحیح ہے کہ اکثریتی فرقہ یا برادری پر اقلیتی برادری کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر جس جگہ پرفوج اور پولیس کے ظلم و ستم کی شکار اکثریتی برادری خود ہی ادھار کی زندگیاں گذار رہی ہو، وہ کیسے پنڈتوں کی زندگیوں کی ضمانت دے سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1990 کی دہائی میں کشمیر میں جو کچھ ہوا وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تنازعہ نہیں تھا۔ یہ بھارتی ریاست کے خلاف بغاوت تھی۔ یہ راتوں رات برپا نہیں ہوئی، بلکہ اس کی ایک خونچکاں تاریخ تھی، جواکثریتی فرقہ کے لہوسے مزیں ہے۔ کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی طوائف الملکی کے ساتھ خوف کی فضا طاری ہوگئی تھی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ ، اوباش اور غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد، محض ہیرو بننے کی غرض سے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت میںشامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں بھارتی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ 1989ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کرادیا۔بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔(جاری ہے)