سن 2005کا زلزلہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقوں میں تھا۔ اس زلزلے نے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا تھا جو انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوا اس کو بہتر بنانے میں دس سال لگ گئے۔ اسی طرح سن 2022کا جو سیلاب آیا اس میں سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ بلوچستان جنوبی پنجاب اور کے پی کے علاقے شامل تھے اور اس سیلاب کی تباہ کاریاں اب تک ہیں۔ملک کی اکانومی اب تک اپنے پاؤں پہ کھڑی نہیں ہو سکی۔ زرعی اجناس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں ،خوراک کی کمی ہے۔ اب صورتحال 2005اور 2022سے زیادہ سنگین ہے۔ بجلی کے بلوں پر جس طرح ملک گیر احتجاج شروع ہوا ہے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی آج تک کسی بھی مسئلے پر سارے ملک میں مظاہرے شروع نہیں ہوئے ۔ یہ ابھی آغاز ہے اس کا انجام کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی دل بیٹھ جاتا ہے۔ ابھی اگست کے مہینے کے بل آنے ہیں اور اس کے بعد ستمبر کے مہینے کے بل۔ان دو مہینوں کے بل بھی کافی زیادہ آئیں گے۔ اکتوبر کے بعد کچھ صورتحال نارمل ہو سکتی ہے لیکن ابھی تو ملک صرف جولائی کے بلوں کی وجہ سے اتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہے۔ نگران حکومت کے بس میں نہیں ہے کہ وہ عوام کو اس سلسلے میں ریلیف دے سکے۔ اب ایک طرف آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں جن کی وجہ سے ہم بجلی کی قیمت بڑھانے پہ مجبور ہیں اور دوسری طرف عوام کا غیظ و غضب ہے ۔ اس وقت ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں عجیب کشمکش کا شکار ہیں ایک طرف عوام کے جذبات ہیں اور دوسری طرف سے سیاسی پارٹیوں کی مجبوریاں۔اس وقت پاکستان مسلم لیگ ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہے نہ تو وہ عوام کے ساتھ ملکر بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ اس احتجاج سے بالکل الگ رہ سکتی ہے ۔ یہی صورتحال پیپلز پارٹی کے لیے ہے لیکن پیپلز پارٹی اس وقت پر تول رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ایک محدود طریقے سے اس احتجاج کا حصہ بن سکے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ پرابلم پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی حکومت کا پیدا کرتا ہے ۔جمعیت علمائے اسلام بھی اس وقت خاموش ہے اور اس کی مقبولیت کو بھی کافی بڑا خطرہ لاحق ہے اسی طرح ایم کیو ایم بھی ابھی تک اس احتجاج کا حصہ نہیں بنی لیکن ایم کیو ایم کے لیے بھی بڑا مشکل ہوگا کہ وہ اپنے اپ کو عوام کے اس احتجاج سے الگ رکھ سکے۔ اس وقت جماعت اسلامی اس احتجاج کو لیڈ کر رہی ہے اور جماعت اسلامی نے دو ستمبر کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے اس وقت تاجروں کی تنظیمیں اور دوسری مختلف تنظیمیں بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں اور خطرہ ہے کہ آنے والے بل اس سے بھی زیادہ آئیں گے۔ اب یہ بوجھ عوام کی قوت برداشت سے بہت زیادہ ہے ایک طرف تو بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ دوسری کثیر جہتی قسم کے ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔ نگران حکومت سوچ رہی ہے کہ ان بڑھے ہوئے بلوں کی قسطیں کر دی جائیں لیکن اس کے لیے بھی منظوری آئی ایم سے لینی پڑے گی۔ اس وقت حکومت چکی کے دو پارٹوں میں ہے ایک طرف آئی ایم ایف کا شکنجہ ہے اور دوسری طرف عوام کا غیظ و غضب ۔جہاں تک الیکشن کا تعلق ہے تو کوئی صورتحال واضح نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 90دن میں الیکشن کا تقاضا کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کا خیال ہے کہ الیکشن نئی حلقہ بندیوں پہ ہوں لیکن پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ اگر الیکشن نئی حلقہ بندیوں پہ ہوئے تو کراچی کی سیٹیں بڑھ جائیں گی اور رورل سندھ کی سیٹیں کم ہو جائیں گی اور جس کا فائدہ ایم کیو ایم کو ہوگا ۔پاکستان تحریک انصاف اس وقت زیر عتاب ہے اور اس کے چیئرمین توشہ خانہ کیس سے بری ہو چکے ہیں لیکن اب وہ سائفر کے کیس میں اندر ہیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پر 200سے زائد کیس ہیں اور خدشہ یہی ہے کہ وہ ایک کیس سے نکلیں گے تو دوسرے میں پکڑے جائیں گے۔ فی الحال ان کی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ہمارے ہمسایہ ملک نے چند دن پہلے چاند پر کامیاب لینڈنگ کی ہے اور ہم اس وقت بجلی کے بلوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ملک کی اکانومی بدترین صورتحال کا شکار ہے ڈالر کی قیمت آئے روز بڑھ رہی ہے۔ شنیدہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھیں گی ۔اسی بنا پہ ابھی سے ڈیزل اور پٹرول کی شارٹیج شروع ہو گئی ہے۔ پہلے ہی16دن میں پٹرول کی قیمت 35روپے سے زیادہ بڑھ چکی ہے تو اگر اب اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ یہ 50سے اوپر کا اضافہ ایک مہینے میں اضافہ ہو جائے۔ ایک طرف بجلی بلوں پر لوگ سراپا احتجاج ہیں ، دوسری طرف اشرافیہ ہے جس کی مراعات کم نہیں ہو رہیں۔اس وقت عوام اس بات پر زیادہ احتجاج کر رہے ہیں کہ فری بجلی ختم کی جائے ۔ابھی واپڈا کی گریڈ 17سے 22تک فری بجلی ختم کی گئی ہے لیکن چوتھے سکیل سے لے کے 17تک کتنے ملازم ہیں جو اب بھی فری بجلی کے مزے لے رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں سے شروع ہونے والا احتجاج کسی بھی بڑی سیاسی تحریک میں تبدیل ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت سارا ملک تیار ہے فصل پک چکی ہے اور کسی بڑی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس وقت واپڈا کے تمام دفتروں پہ پولیس کا پہرا ہے۔ واپڈا نے اگلی ریڈنگ لینے سے معذوری کا اعلان کر دیا ہے اور ملک اس وقت ایک بحران کا شکار ہے اگر بلوں کی ادائیگی نہیں ہوتی تو آنے والے دنوں میں بجلی کی ترسیل بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔