اپنے اپنے مسائل اور اپنے اپنے رولے۔کوئی نواز شریف کی واپسی کو لے کر بیٹھا ہے اور کوئی نیب مقدمات کی بحالی کے فیصلے کو۔ میں مگر ڈھلتے دن کی چھائوں میں عابد چرواہے کے ساتھ گوکینہ کی ایک پگڈنڈی پر بیٹھا ہوںاور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ساون بھی گزر گیا اور بھادوں بھی لیکن مارگلہ میں نہ کوئی ندی رواں ہوئی نہ کوئی آب شار۔ تو یہ کیسی برسات تھی ، یہ کیسا ساون تھا اور یہ کیسا بھادوں تھا؟ بھادوں کی ندیاں اور آبشاریں کوئی کھیل نہیں ، پورے ایک سال کے انتظار کے بعد یہ موسم مارگلہ میں آتا ہے ، اگر آکر یہ یونہی گزر جائے تو اس سے بڑی نارسائی اور کیا ہو سکتی ہے۔سال میں ایک ہی تو برسات آتی ہے ، ایک ہی ساون ایک ہی بھادوں ، یہ بھی اگر اپنا جوبن دکھائے بغیر چل دیں تو اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ ایک سال مزید انتظار۔ اس دفعہ گاوں کا بھادوں مارگلہ میں اترا ہے۔ تلخ اور خشک۔ گائوں میں بھادوں کی رت میں دھوپ میں نکلنے پر ماںپابندی لگا دیتی تھی۔ انہیں بہت سے ’ اکھان‘ یاد تھے اور ان میں ایک کچھ اس طرح کا تھا کہ بھدروں میں تو گدھا بھی چھائوں تلاش کررہا ہوتا ہے ۔یہ شدید حبس اور گرمی کا مہینہ ہوتا تھا ۔جب تک ٹیوب ویل پر نہاتے رہو امان ہے ، باہر نکلو تو جسم جھلس جاتا تھا۔ مارگلہ کا بھادوں مگر پروین شاکر کی نظموں جیسا تھا۔ میٹھا میٹھا ، خوشگوار ، سورج کی کرنوں کی طرح دل کے سیپ میں اتر جانے والا۔ ایسا تند اور تلخ بھادوں پہلے اسلام آباد میں کبھی نہیں دیکھا ۔ بھادوں کے جاتے جاتے مارگلہ کا موسم بدل چکا ہوتا تھا ۔ ساون اور بھادوں مارگلہ میں ایک پورے پیکج کا نام ہے۔ ساون میں برسات ہوتی ہے تو زمین کی پیاس ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا دامن پانی سے بھر جاتا ہے۔ نمی اس کے اندر تک سرایت کر جاتی ہے ۔ ساون کے جاتے جاتے زمین کی حدت اور خشکی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر بھادوں آتا ہے اور جب یہ جم کر برستا ہے تو زمین میں مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ پھر خشک چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ، ندیاں اور آب شاریں رواں ہو جاتی ہیں۔ اب کی بار یہ ہوا کہ نہ ساون اس طرح برسا جیسے پہلے برستا تھا اور نہ ہی بھادوں۔ ساون میں بارشیں تو کافی ہوئیں لیکن تیز اور کم وقفے کے لیے ہوئیں۔ اگر دھیرے دھیرے ، موسلا دھار اور طویل دورانیے کے لیے مینہہ برسے تو زمین زیادہ پانی جذب کر لیتی ہے ۔ لیکن اگر تیز بارش ہواور مختصر دورانیے کے لیے تو زمین زیادہ پانی جذب نہیں کر سکتی۔ اس بار ساون میں مارگلہ کے جنگل کے ساتھ یہی ہوا۔ اس کی پیاس نہیں بجھی، اس کی تشنگی ختم نہیں ہو سکی۔ بھادوں اگر جم کر برس جاتا تو اس کا ازالہ ہو سکتا تھا لیکن بھادوںنے تو اس دفعہ بالکل ہی مایوس کیا۔ اس وقت جب میں سطور لکھ رہا ہوں بھادو ں مارگلہ سے رخصت ہو چکا ہے۔ اس سارے دورانیے میں ایک بارش بھی جم کر نہیں ہوئی۔ شدید بارشیں بھی ہوئیں اور طوفان بھی آیا مگر مختصر دورانیے کے لیے۔ وہ بارش جو ایک پہر برستی رہتی ہے اور دھیرے دھیرے زمین کے دامن میں اترتی رہتی ہے وہ نہیں برسی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ندیاں خشک ہیں اور آبشارں کی کوئی خبر نہیں۔ پچھلے سال بھادوں میں شاہ درا سے آگے پہاڑوں میں واقع آب شار زوروں سے بہہ رہی تھی۔ کچھ دن تو ایسے تھے کہ آب شار تک پہنچنے کا راستہ ہی پانی کے بہائو کی وجہ سے بند رہا۔ کیونکہ ایک دو مقامات پر ندی کے اندر سے گزرنا پڑتا ہے اور ندی میں تیزی ہو تو وہاں سے گزرنا ممکن نہیں رہتا۔ بھادوں کے آخری دنوں میں جب ندی میں پانی کا بہائو ذرا کم ہوا تو ہم اس آبشار تک پہنچے۔ آب شار آدھے زور سے بہہ رہی تھی یعنی اس میں پانی کا بہائو اب نصف رہ گیا تھا لیکن پھر بھی اس میں خاصی تیزی تھی۔ اب کی بار معاملہ یہ ہوا ہے کہ ساون کے بعد بھادوں بھی آ کر چلاآیا ہے اور یہ آبشار رواں نہیں ہوئی۔ اس ندی میں بھر کر پانی نہیں آیا۔ زعفرا ن صاحب کا گھر جنگل میں ندی کنارے ہے۔ میں ان سے مسلسل رابطے میں رہا کہ آبشار رواں ہو تو اسے دیکھنے جایا جائے لیکن آب شار خشک پڑی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس بار تو اتنا پانی بھی نہیں آیا کہ ندی کی تہہ پر جمی کائی کو ہی بہا لے جاتا۔ بھادوں کے یہ آخری ایام ہماری آخری امید تھے، خیال تھا کہ ایک دو بارشیں زوروں سے ہو گئیں تو ندیاں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ موسمیات والوں نے بھی امید دلائے رکھی کہ آج بارش ہو گی،کل بارش ہو گی اگلے ہفتے بارش ہو گی لیکن تمام امیدیں خاک ہو گئیں۔ اگلے روز خبریں چلیں کہ سترہ سے بیس ستمبر تک تیز بارشوں کی توقع ہے۔ آج دیکھا تو موسمیات والے کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ اب صرف ایک روز بارش کا بتایا جا رہا ہے اور وہ بھی چند گھنٹے کے لیے ۔ بارش کے امکان کا تناسب ایسا ہے کہ اگر سرے سے بارش ہی نہ ہوئی تو کوئی حیرت نہیں ہو گی۔ درہ جنگلاں اور درہ کوانی کی ندیوں کا حال زیادہ خراب ہے۔ پچھلے سال جب شاہ درا میں ندی اور آب شار زوروں پر تھی تب بھی درہ جنگلاں اور درہ کوانی کی ندیاں خشک پڑی رہیں۔ اس سال تو شاہ درا کی آبشار بھی خشک پڑی ہے تو درہ جنگلاں کی ندی میں پانی کہاں سے آ ئے گا۔ مارگلہ کی ان ندیوں کا معاملہ بھی عجب سا ہے۔ درہ جنگلاں کی ندی چار سال پہلے اتنے زوروں سے بہتی رہی اور دو ماہ بہتی رہی کہ لگتا تھا اب کبھی خشک نہیں ہو گی اور اب ایسے خشک پڑی ہے کہ لگتاہے اس میں کبھی پانی آیا ہی نہ تھا۔چار سال پہلے بھی جب اس میں روانی آئی تو یہ دس بارہ سال کے وقفے کے بعد آئی تھی۔ وقفے کا موجودہ دورانیہ کتنا طویل ہو گا کچھ معلوم نہیں۔ جنگل تباہ ہوو رہا ہے ، اجڑ رہا ہے۔ کہنے کو یہ نیشنل پارک ہے لیکن اوپر ہوٹل کھلتے جا رہے ہیں۔ روز سینکڑوں گاڑیوں کی کئی کلومیٹر لمبی لائن ان ہوٹلوں کے باہر کھڑی ہوتی ہے۔ نام نہاد اشرافیہ پیٹ کا جہنم تھامے وہاں جاتی ہے اور جنگل میں غلاظت پھینک کر لوٹ آتی ہے ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔یہ ہوٹل اپنا سارا فضلہ جنگل میں ڈمپ کر دیتے ہیں۔ ان کی واش روموں کی غلاظت سیدھی نیچے سید پور کی ندی میں شامل ہو تی ہے۔ یاد رہے کہ سید پور ماڈل ولیج ہے۔ اس ماڈل ولیج اور قومی ورثے کی ندی کو ہوٹل مالکان نے غلاظت سے بھر دیا ہے لیکن کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔ سید پور کا یہ گائوں مغل بادشاہ جہانگیر کی بیوی کو شادی کے تحفے میں ملا تھا۔ ہندو تہذیب میں بھی اس گائوں کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ لیکن ہماری بے بصیرتی سے اس گائوں کی ندی جوہڑ بن چکی ہے۔مغل بادشاہ جس چٹان پر بیٹھتا تھا بد بو کی وجہ سے وہاں کھڑا نہیں ہوا جا سکتا۔ سمجھ نہیں آتی ،بھادوں کو روئیں یا خود پر روئیں؟