ممتاز ترین امریکی کالم نگار، مصنف اور استاد آرٹ بک والڈ کی شگفتہ تحریروں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ گزشتہ روز بک والڈ کے کالموں کے اردو تراجم پر مبنی کتاب کا تذکرہ کیا تھا جسے بک کارنر جہلم نے شائع کیا۔ اس کتاب کو پڑھ رہا ہوں اور ہر کالم نظر روک لیتا ہے، پورا پڑھے اور لطف اٹھائے بغیر گزر نہیں ہو پارہا۔ کیا شگفتگی اور کیالطیف طنز تھا بک والڈ کے کالم میں۔ گزشتہ کالم میں بک والڈ کی تحریر کے حوالے سے امریکی شطرنج چیمپین بوبی فشر کا ذکر آیا، بعض قارئین نے ا سکی تفصیل پوچھی ہے۔ بوبی فشر بہت ہی مختلف اور منفرد انداز کا شطرنج کا کھلاڑی تھا۔ بوبی فشرکا بچپن خاصا ناخوشگوار اور تلخ تھا۔ اسی وجہ سے شائد اس کے مزاج میں کڑواہٹ، تلخی اور بلا کا تلون تھا، گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشہ والی کیفیت۔ وہ خاصا مردم بیزار بھی تھا اور من موجی بھی، اس کی زندگی مختلف اور بڑے منتشر انداز سے گزری۔ آخری برسوںمیں وہ جاپان میں قیدبھی رہا اور بھی کئی عجیب واقعات اسکی زندگی میں آئے۔ اس بات پر مگر سب متفق ہیں کہ بوبی فشر ایک جینیس تھا، شطرنج کی دنیاکا ایک منفرد کھلاڑی۔دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کا آئی کیو 180تھا، آئن سٹائن سے بھی خاصا زیادہ ۔ یاد رہے کہ آئن سٹائن کو دنیا کا سب سے زیادہ آئی کیو رکھنے والا شخص سمجھا جاتا ہے، ایک سوساٹھ کے لگ بھگ ۔ بوبی فشر کے مداحین دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فوقیت لے گیا تھا۔ بوبی فشر آٹھ یو ایس چیمپین شپ میں شریک ہوا اور سب کی سب جیت گیا۔ البتہ وہ صرف ایک ہی بار ورلڈ چیمپین بنا ، اس نے بورس سپاسکی کو ہرایا۔ اس کے بعد اس چیمپین شپ کا اس نے دفاع نہیں کیا۔وہ واحد امریکی تھا جو ورلڈ چیمپین بنا، اسی لئے امریکہ میں اسے گلوریفائی کیا گیا۔ اس کے ناقدین کی البتہ رائے ہے کہ اس کے عہد میں اور اس کے بعداس سے کہیں بہتر کھلاڑی موجود تھے جیسے کیپابلانکا، میر سلطان خان جن کا تعلق سرگودھا سے تھا،وغیرہ ، میخال تال جسے میجیشن آف ریگا کہا جاتا ہے ، گیری کیسپاروف بھی۔ بوبی فشر کے شطرنج کے سٹائل پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس کی چالیں کمال کی ہوتی تھیں، تخلیقی، ایسی جن کا کبھی شطرنج کی کتابوں یا پرانے قصوں میں تذکرہ ہی نہیں ہوا۔ بوبی فشر کے سٹائل اور اس کے بعض اہم میچز اور خاص کر غیرمعمولی چالوں پر یوٹیوب پر بھی خاصا مواد موجود ہے، بہت سے ویڈیو کلپس ہیں جن میں ماہرین بتاتے ہیں کہ کس طرح فلاں میچ میں بوبی فشر نے یہ چال چلی اور مخالف کو بھونچکا کر دیا تھا۔ شطرنج سے تھوڑی بہت مجھے بھی دلچسپی رہی ہے اور سچی بات ہے کہ بوبی فشر کی وہ چالیں حیران کن لگ رہی تھیں جیسے غیب سے اسے خیال آیا ہو۔ بوبی فشر کی ڈرامائی اور نشیب وفراز سے معمور زندگی پر کئی فلمیں اور ڈاکیومینٹریز بھی بنائی گئی ہیں۔ بوبی فشر ایگنسٹ دا ورلڈ، بوبی فشر اینڈ می وغیرہ۔ تھوڑی سی نیٹ پر سرچ کی جائے تو آپ کو یہ مواد مل جائے گا۔ شطرنج کے دیگر غیر معمولی میچز کی تفصیل بھی یوٹیوب پر دستیاب ہے۔ آرٹ بک والڈ کی کتاب کاذکر چل رہا تھا، اس کا ایک کالم پڑھا تو لگا کہ ہو بہو ہمارے ہاں کا قصہ بیان کیا ہے۔ اس تحریر میںایک امریکی گھرانے کا تذکرہ ہے جنہوں نے رات کو ٹی وی کھولا تو سکرین میںتب کے امریکی صدر نکسن کی تصویر نظر نہیں آئی۔چینل بدلے مگر صدر کہیں پر براجمان نہیں تھے، فیملی پریشان ہوگئی کہ ٹی وی خراب ہوگیا ہے، مکینک کو بلایا گیا، اس نے چیک کیا اور پھر آخر کہا کہ ٹی وی بدلنا پڑے گا۔مکینک کو ٹی وی سیٹ تھوپنے کی کوشش کی گئی تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ یہ کیسا ٹی وی ہے جس میں صدر کی تصویر ہی ہر وقت نظر نہیں آتی۔ یہ میڈیا پر حکمرانوں کی ناروا اور بے پناہ کوریج پر بہت ہی خوبصورت ، لطیف طنزیہ کالم ہے۔ آپ اس میں صدر نکسن کی جگہ پر جناب شرجیل میمن یا جناب رانا ثنااللہ کا نام ڈال لیں۔ یوں لگے گا کہ کسی نے پاکستان کے حوالے سے کالم لکھا ہے۔ آج کل تقریباً ہر روز شرجیل میمن ٹی وی سکرین پر براجمان ہوجاتے ہیں اورگھنٹہ ڈیڈھ تک روزانہ ہی اپنی فصاحت سے مظلوم پاکستانی عوام کی سمع خراشی کرتے ہیں۔ نجانے انہیں یہ خوش گمانی کس سوختہ بخت نے دلائی کہ وہ عوام میں بہت مقبول ہیں یا اچھا بولتے ہیں یا لوگ انہیں سننا چاہتے ہیں۔ آئیے آرٹ بک والڈ کے اس کالم کا اقتباس پڑھتے ہیں: ’’ گزشتہ رات ہم اہل خانہ ڈنر کے بعد ٹی وی دیکھنے نشست گاہ (لائونج) میں داخل ہوئے، بیوی نے ٹی وی آن کیا تو بولی ، عجیب بات ہے، ٹی وی میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے، سکرین پر صدر نکسن نظر نہیں آرہے ؟ میں نے مشور ہ دیا،کسی دوسرے چینل پر کوشش کرو۔ بیوی نے چینل تبدیل کیا تو اس پرکوئی کرائم ڈرامہ چل رہا تھا۔ صدر اس چینل پر بھی موجود نہیں۔ میں نے اٹھ کر ٹی وی کے تمام چینل آزما ڈالے ، لیکن صدر نکسن کہیں بھی نمودار نہیں ہوئے۔ ’’ اس سیٹ میں کون گھسا تھا، کس نے گڑ بڑ کی ؟‘‘میں چیخ پڑا۔ بچے سہم گئے، ہر ایک اپنی اپنی صفائی پیش کرنے لگ گیا۔ہم نے اسے چھوا تک نہیں، بیٹے نے کہا۔ بیٹیاں بھی یہی کہہ رہی تھیں۔ ؔ’’لعنت ہے، ہم دن ہو یا رات ، کسی بھی وقت یہ سیٹ آن کرتے تھے اور کوئی بھی چینل لگاتے تھے، صدر نکسن کی تصویر نمایاں ہوتی تھی اور آج ہم انہیں ایجوکیشنل ٹی وی پر بھی دیکھنے سے محروم ہیں۔ ‘‘ برہمی کی حالت میں میں نے ٹی وی ٹھیک کرنے والے شخص کو فون کیا اور اسے فوری آنے کا کہا۔ اس نے کہاکہ اگر ایک دن بعد آ جائوں تو ؟ میں نے جھنجھلا کر کہا،’’ کسی بھی صورت میں نہیں، ابھی آئو چاہے تمہاری زندگی پر بن جائے۔ میں گزشتہ سال میں کبھی ایک دن کے لئے بھی صدر نکسن کے دیدار سے محروم نہیں رہا، اب بھی یہ محرومی قبول نہیں۔ ‘‘ کچھ دیر بعد وہ ٹی وی مکینک آ گیا۔ اس نے اپنے اوزاروں سے اچھی طرح چیک کیا ، پھر کہنے لگا، آپ ٹھیک کہتے ہیں، یقینا کوئی نہ کوئی خرابی ہے، ہوسکتا ہے ایریل میں نقص ہو۔ وہ چھت پر چڑھ گیا، اینٹینا چیک کیا اور کہنے لگا کہ وہ تو ٹھیک لگ رہا ہے۔ پھر مکینک کہنے لگا ممکن ہے خرابی پکچر ٹیوب میں ہو۔ بھلا ٹی وی پکچر ٹیوب کا اس معاملے سے کیا تعلق ؟میں نے پوچھا۔ ’’ دراصل جب پکچر ٹیوب نصب کی جاتی ہے تو انتہائی طاقتور قسم کا ’’نکسن سگنل ‘‘خارج کرتی ہیں، جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے فِلامنٹ میں اندرونی ردعمل شروع ہوجاتا ہے اور پکچر ٹیوب کمزور سے کمزور تر ہوتی جاتی ہے۔ بعض پرانے ٹی وی سیٹ میں لوگوں کو نکسن دکھائی ہی نہیں دیتے، لیکن یہ تو نیا سیٹ ہے، اس پر نکسن کا عکس ضرور موصول ہونا چاہیے، خواہ ا ن کا سایہ ہی کیوں نہ دکھایا جا رہا ہو۔ ‘‘ مکینک نے پھر پکچر ٹیوب چیک کی، خرابی اس میں بھی نہیں۔ ’’ہوسکتا ہے کہ ٹی وی کے ایڈجسٹر میں خرابی ہو؟ یہ بتائیے کہ آپ نے آخری بار صدر نکسن کا دیدار کیا تھا تو وہ کھڑے ہوئے تھے یا بیٹھے، لیٹے ہوئے تھے ؟‘‘ میں نے جواب دیا، میرے خیال میں وہ کھڑے تھے۔ مکینک ٹی وی کا عقبی کور کھول کر تین گھنٹے تک مصروف رہا۔ ہم سب اس دوران نروس بیٹھے ٹی وی ٹھیک ہونے کا انتظار کرتے رہے ۔ آخر اس نے ٹی وی دوبارہ آن کیا۔ وہ مختلف چینلز تبدیل کرتا رہا، ہمیں مختلف لوگ، کردار، کارٹون، ڈرامے دکھائی دئیے مگر صدر نکسن بدستور غائب تھے ۔ تھک ہار کر مکینک نے اعلان کیا، میں مزید کچھ نہیں کر سکتا،آپ کے ٹی وی کی سکرین عیب دار ہوگئی ہے۔ آپ کو یہ ٹی وی سیٹ کوڑے میں پھینکنا پڑے گا۔ ’ابھی تو یہ صرف ایک سال کا ہے‘‘میں نے احتجاج کیا۔ ’’سیٹ ہی گھٹیا ہے تو میرا کیا قصور؟ ‘‘مکینک نے جواب دیا۔ ’’یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس سیٹ میں کسی جگہ کمزور نکسن فیوز موجود ہے،لیکن میں اسے تلاش نہیں کر سکتا۔ ‘‘ ’’اگر میں یہ سیٹ تمہیں فروخت کرنا چاہوں تو تم اس کی کیا قیمت لگائو گے ؟‘‘ میں نے مکینک سے پوچھا۔ ’’یا پھر یہ سیٹ لے کر تم اس کے بدلے نیا سیٹ دو تو مجھے کتنی مزید رقم دینا پڑے گی ؟‘‘ مکینک نے بھنا کر جواب دیا:’’ کیا آپ کا دماغ چل گیا ہے؟ ایک ایسے ٹی وی سیٹ کی میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں دوں گا جو دن کے وقت بھی صدر نکسن کی زیارت کرانے سے قاصر ہو۔ ‘‘