27 سال قبل عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی شاید اس وقت ان کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ان کی جماعت22سال میں مرکز اور اس سے بھی کم عرصہ17سال میں ایک صوبہ برسر اقتدار آجائے گی ، نومولود پاکستان تحریک انصاف کا مرکزی دفتر میلوڈی اسلام آباد میں واقع ہوا کرتا تھا اور اس کی رونقیں بس صرف عمران خان کے دم قدم سے ہی ہوا کرتی تھیں مجھے اچھی طرح یاد ہے سیف اللہ نیازی مرکزی دفتر کے منتظم کے طور پر فرائض سر انجام دیا کرتے تھے کارکن صحافی'' لذت کام ودہن''اور سیلبرٹی کے ساتھ فوٹو سیشن کیلئے پی ٹی آئی مرکزی دفتر کا چکر لگاتے لیکن انہیں وہاں سے کوئی خبر ملتی اور نہ ہی ''خبر'' والے، تاہم وہاں'' اسٹیٹس کو''سے تنگ عمران خان کے خیالات سننے کو ضرور ملتے وہ سیاسی گروئوں کے ہاتھوں میں ملک کے مستقبل سے پریشان نظر آتے اس دوران دو تین بار ان کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا میں نے محسوس کیا ان کی گفتگو میںٹھہرائو تھالیکن کوئی گہرائی نہیں، عزم تھا لیکن کوئی منشور یا روڑ میپ نہیں اور یہ ہی کیفیت پی ٹی آئی کے مٹھی بھر کارکنان کی بھی ہوا کرتی تھی انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کس راہ کے مسافر ہیں تاہم وہ عمران خان کے فین ضرور ہوتے تھے۔ ہمارے ایک دوست زاہد قریشی مرحوم نے عمران خان کی محبت میں پی ٹی آئی جائن کی ہوئی تھی لیکن عمران خان سے چند ملاقاتوں کے بعد ہی غیر فعال ہو گئے، میں نے استفسار کیا قریشی صاحب آج کل پی ٹی آئی کی سر گرمیوں میں نظر نہیں آتے ان کا جواب تھا بس کافی ہو گیا ہے یاراور دل بھی بھر گیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے قیام کے بعد پہلے عام انتخابات 2002ء میں منعقد ہوئے جس میں پی ٹی آئی کو عوام میں کوئی خاطر خواہ پزیرائی نہ مل سکی اور ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک ایک ہی صف میں نظر آتیں ہیں دونوں جماعتوں نے ایک فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کئے اور صرف اور صرف قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی پاکستان تحریک انصاف نے2008ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تاہم 2013ء میں پی ٹی آئی نے ملک سے اپنے امیداوار میدان میں اتارے اور 17فیصد ووٹ حاصل کر کے سیاست میں اپنی بھر پور انٹری ڈالی ،پی ٹی آئی نے نہ صرف قومی اسمبلی کی 28نشستوں پر کامیابی حاصل کی بلکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں بھی اپنی حکومت قائم کی ان انتخابات میں پی ٹی آئی ووٹ بینک کے اعتبار دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ،2013ء سے 2018ء تک پی ٹی آئی کا طرز سیاست انتہائی جارحانہ رہا جس کے نتیجہ میں عوام میں پی ٹی آئی کا طرز سیاست مقبول ہوا مقبول طرز سیاست کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ یہ درست بھی تھا۔ اس طرز سیاست کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی قیادت کا پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ ان کی زبان میں بات کرنا تھا ملک میں سیاسی کثافت کا قصور وار کسی ایک جماعت کوٹھہرایاا نہیں جاسکتا ذرا یاد کریں ماضی میں فرعون کی زبان میں کون بات کرتا تھا؟ کس نے اپنے سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالیں تھیں؟ کس نے دو تہائی اکثریت کے مینڈیٹ میں آکر اداروں کی روایات دائو پر لگائیں اور میرٹ کی دھجیاں اڑا ئیں تھیں،'' ادارے'' پالیسی کسی بنیاد پر ہی بناتے ہیں، شرافت کے کلچر کاکس نے خاتمہ کیا تھا ، محمد خان جو نیجو شرافت کی سیاست کے علمبردار تھے کس نے ان کے خلاف غداری کی تھی اور کس نے ان کی جماعت کو ہائی جیک کیاتھا۔ یاد کیجئے ہمیں سب معلوم ہوجائے گا کہ قصور وار کون ہے ؟ روایتی''مقبول سیاسی کلچر'' کو اختیار کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے2018ء کے انتخابات میں حصہ لیا جس کے نتیجہ میں اسے32فیصد ووٹ ملے اور اس نے قومی اسمبلی کی 116 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ملک کی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اس کی جیت کی ایک وجہ '' ایلکٹبیل''تھے جو انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے تاہم عمران خان نے ان ''ایلکٹیبل'' کے شامل ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کا کنڑول روم تبدیل نہیں ہو نے دیا ملک بھر سے بڑی بڑی قد آور شخصیات پی ٹی آئی میں شامل ہوئیں ہر کسی کا دائرہ اختیار محدود رہا ،2013ء اور2018ء کے عام انتخابات میںدودلچسپ پہلو نظر آئے پہلا 2013ء میں پی ٹی آئی کا 2008ء میں عام انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود ملک بھر سے 17فیصد ووٹ حاصل کرنا اور خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومت تشکیل دینا دوسرا 2018ء میں پی ٹی آئی کا 32فیصد ووٹ حاصل کرنا اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں مسلسل دوسری بار اپنی حکومت تشکیل دینا تھا حالانکہ صوبہ خیبر پختون خوا کے عوام کی روایت رہی ہے کہ وہ مسلسل دوسری کسی کو موقع نہیں دیتے آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟ کیا یہ کام راتوں رات ہو ئے ؟2018ء میں عمران خان کی کامیابی میں ''ایلکٹیبل'' نے کردار ادا کیا تھا خان صاحب ''ایلکٹیبل'' کی تھیوری کے بڑے قائل تھے اب کم از کم انہیں اس تھیوری کی حقیقت سمجھ میں آگئی ہو گی کہ ''ایلکٹیبل'' اور'' کیپیبل''میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ کہاو تیں یا ضرب المثل ایسے ہی نہیں بن جاتے بلکہ اس کے پس پردہ ایک مکمل تاریخ اور کہانی ہوتی ہے دو کہاوتیں موجودہ حالات کے تناظر میں یاد آرہی ہیں سوچازیب قرطاس کر دی جائیںکہا جاتا ہے کہ جب ٹانگیں کھینچنے والے اچانک ٹانگیں دبانے لگ جائیں سمجھ جائیں کہ دال میں کچھ کالا ہے اور بھائی صاحب جو آسانی سے مل جائے وہ ہمیشہ نہیں رہتا اور جو ہمیشہ کیلئے مل جائے وہ آسانی سے نہیں ملتا ۔