دہلی میں ہندئووں کے ایک بہت بڑے جلسہ عام میںہزاروں شرکاء جلسہ سے ہاتھ بلند کراتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کے سرقلم کرنے کاعہد لیا گیا ۔ یہ تعجب خیز اس لئے نہیں کیونکہ بھارتی دارالحکومت مسلم کشی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے ۔ گزشتہ 75برسوں کے دوران موقع ہاتھ آتے ہی مسلمانوں کا قتل عام کردیاگیا ہے جبکہ ان کی بستیوںکو آگ لگاکرتہہ وبالاکردیاگیا۔ معمولی بہانہ تراشتے ہوئے بھارتی ریاستی مشینری’’بی جے پی حکومت ‘‘ کے بھرپورتعاون سے آج بھی دہلی کو مسلمانوں سے پاک کرنے کے لیے آرایس ایس اوراس کی درجن بھر ذیلی تنظیمیں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں۔ زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیںفروری 2020ء کودہلی میںمسلم کش فسادات ہوئے بیسیوں مسلمانوں کو آن واحد میں شہید کردیاگیااورپھران کی لاشوں کودہلی کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ مساجد ،مدارس اورمسلمانوں کے آشیانے آگ میں بھسم کردئے گئے ۔ مصطفیٰ آباد، چاند باغ، گوکل پوری، جعفرآباد، بابر پور، کبیر نگر، شاہین باغ پرانی دلی کے وہ علاقے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں۔ یہ بھارت کا دارالحکومت ہی ہے کہ جہاں1984ء میں اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ گارڈز نے قتل کیا تواس کا بدلہ عام سکھوں سے لیا گیااوراندرا گاندھی کے قتل کے بدلے تین ہزار سکھ قتل کردیئے گئے ۔اب جب اسی دہلی میں گجرات کا قصائی نریندرمودی بطور بھارتی وزیر اعظم براجماں ہوا تو پھر یہاں سے مسلمانوںکوختم کرنے اورانہیں بھگانے کے لئے کبھی بھی ،کچھ بھی ہو سکتا ہے۔یہ اندیشہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اگرشک ہے تو پھر 9 اکتوبر 2022 ء اتوارکو بھارت کے دارالحکومت دہلی میں وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو گروپوں کے زیر اہتمام منعقدہ جلسہ عام کی ویڈیوکلپس دیکھیںجس میں ہندو سنتوں نے ہندئووں کوکھلے عام مسلمانوں پر حملے کرنے پر اکسایا ۔ معروف سنت جگت گرو یوگیشور آچاریہ نے اپنی تقریر میں ہندئووں سے کہا کہ مسلمانوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو اور ان کے سر قلم کر و یہی مسئلے کا حل ہے۔ جگت گرو یوگیشور کاکہنا تھا اس کام کوانجام دینے کی پاداش میں زیادہ سے زیادہ یہ سزاہوسکتی ہے کہ تمہیںجیل جانا پڑے گا، لیکن ہم تمہیں جیلوں سے باہرنکالیں گے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان پرویش سنگھ ورما تقریرکرتے ہوئے ہندوؤں سے کہہ رہا تھا کہ ’’سنو اگر بھارت میں مسلمانوں کو سبق سکھانا ہے اور ایک ہی بار اس مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کا ایک ہی علاج ہے، کہ مسلمانوںکے ساتھ مکمل سوشل بائیکاٹ کریں۔اس دشمن اسلام نے تمام شرکاء جلسہ سے حلف لیاکہ وہ مسلمانوں سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے، ان کی دکانوں سے سبزیاں نہیں خریدیں گے۔ اس موقع پر بی جے پی کے کئی اراکین اسمبلی، وی ایچ پی کے لیڈر اور پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ اس جلسے میں ہندو سنت مہنت نول کشور د نے اپنی تقریر کے دوران ہندوؤں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس لائسنس یا بغیر لائسنس والی بندوقیں ہیں، اگر نہیں تو بندوقیں حاصل کرو، لائسنس حاصل کرو۔ اگر لائسنس نہ ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ اس کا کہنا تھاکہ اگر ہم مل کر رہیں گے تو پولیس کچھ نہیں کرسکے گی، بلکہ دہلی پولیس کمشنر ہمیں چائے پلائیں گے اور ہم جو کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں گے۔دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ منافرت آمیز تقریروں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے کیونکہ کسی نے ان کے خلاف رپورٹ درج نہیں کرائی ہے۔رواں برس امریکہ نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو ’’خصوصی تشویش والے ممالک‘‘کی فہرست میں شامل کیا ہے لیکن یہ صرف کاغذی خانہ پوری ہے۔ اسے قبل 31 جنوری 2022ء کوہندو مت کے لیڈروں ’’ہندوسنتوں‘‘ نے عام ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ بھارت سے مسلمانوں کا صفایاکرنے کے لئے تیار ہوجائیں کیونکہ انہیں ’’ہندو راشٹر‘‘بھارت میں رہنے کاکوئی حق حاصل نہیں ہے۔ہندو مت کے لیڈروں ’’ہندوسنتوں‘‘ نے عام ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ بھارت کو ہندوراشٹر لکھنا اور کہنا شروع کر دیں،تاکہ مودی حکومت کیلئے بھارت کوہندو ملک ڈیکلیئر کرنے کی راہ ہموار کی جا سکے ۔ ہندو سنتوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہندوؤں کا احترام نہ کرنے والے مسلمانوں کو پاکستان بھیج دینا چاہیے۔ 26 دسمبر 2021ء میں ہر دوار میں منعقدہ متنازعہ دھرم سنسد (مذہبی پارلیمنٹ) کے بعد 31جنوری 2022ء کوبھارتی ریاست اترپردیش کے ہندو مذہبی شہر پریاگ راج(سابقہ الہ آباد) میں دوسرا دھرم سنسد منعقد ہوا، جس میں پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں۔ ہردوار دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی پرہندئووں کو اکسایا گیا۔ پریاگ راج دھرم سنسد میں دارالعلوم دیوبند اور بریلی کے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور وہاں موجود لوگوں نے انتہائی ذلت آمیز زبان استعمال کی۔ دریائے گنگا، جمنا اور تصوراتی سرسوتی کے سنگم پر ہندو مذہبی رہنما جگت گرو سوامی نریندرانند سرسوتی کی صدارت میں منعقدہ سنت سمیلن میں منظور کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ ہو سکتا ہے مودی حکومت بھارت کوہندو راشٹر بنانے کا اعلان کرے اوریہ کہ تمام ہندوؤں کو بھارت کو ہندو راشٹر لکھنا اور بولنا شروع کردینا چاہیے۔ پربودھانند نے ہردوار کے دھرم سنسد میں بھی انتہائی اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کے مسئلے کے حتمی حل کے لیے روہنگیا باشندوں کے قتل عام جیسی کارروائی کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے بھارتی پولیس، فوج اور سیاست دانوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے متحد ہوجانے کی اپیل بھی کی تھی۔ سوامی نریندرانند سرسوتی نے ہندوؤں کو دیوی دیوتاؤں سے سبق لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ہتھیار اٹھا لیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقاریر نے والوں نے کہا کہ ہم بھارت کوہندوراشٹر بنانے کے لئے بھگت سنگھ کے کارنامے کو دہرانے کے لیے تیار ہیں۔خیال رہے کہ بھگت سنگھ نے سال1929ء میں ایک برطانوی قانون کی مخالفت میں دہلی کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں بم دھماکہ کیا تھا۔