پارلیمان میں آخری دنوں میں قانون سازی کے بہت سارے مسودات (بل) پیش کیے گئے۔ ان میں بعض ایسے تھے جنھیں قومی اسمبلی سے تو منظور کرالیا گیا لیکن سینیٹ سے منظور نہیں کروایا جاسکا؛کچھ کو سینیٹ میں پیش کرنے کے بعد واپس لے لیا گیا؛ بعض میں سینیٹ نے کچھ ترامیم کیں تو انھیں پھر سے قومی اسمبلی سے منظور کرانا پڑا؛ اور چند ایک ایسے تھے جنھیں سینیٹ میں پیش ہی نہیں کیا جاسکا۔ یوں قومی اسمبلی تو بالکل ہی ربڑ سٹیمپ ثابت ہوگئی، لیکن سینیٹ نے کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کیا۔ جن بلوں کو قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد سینیٹ میں شدید مزاحمت کے خوف سے پیش ہی نہیں کیا جاسکا ان میں سے ایک "اقلیتی کمیشن کے قیام کا بل" تھا۔ اس بل کا پس منظر یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2014ء میں ایک از خود نوٹس کے مقدمے میں حکومت کو حکم دیا تھا کہ تعلیمی نصاب سے غیر مسلموں کے خلاف "نفرت انگیز مواد" دور کیا جائے۔ یہ فیصلہ اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے لکھا تھا اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ درخواست گزاروں میں ایسے بھی تھے جن کے مشیروں میں چیف جسٹس صاحب کے برخوردار جناب ثاقب جیلانی بھی شامل تھے۔ اس فیصلے کے بعد جناب ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل "یک رکنی" کمیشن قائم کیا گیا جس نے ایک مستقل اقلیتی کمیشن بنانے کیلیے قانون کا مسودہ تیار کیا اور جناب ثاقب جیلانی اس کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ اعلی عدلیہ کے معزز ججوں کی اولاد اور رشتہ داروں میں وکلا کے متعلق سخن ہائے گفتنی کا ناگفتنی رہنا ہی بہتر ہے۔ بہرحال وزارتِ مذہبی امور نے اس دوران اس یک رکنی کمیشن کے متوازی ایک الگ اقلیتی کمیشن بنالیا ہے اور دونوں کمیشنوں میں کھینچا تانی بھی ہے۔ نیز یک رکنی کمیشن کے خلاف مختلف اقلیتوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی جاچکی ہیں۔ وزارت نے جون 2016ء میں اقلیتی امور سے متعلق پالیسی اور مجوزہ قانون کا مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل کے تبصرے کیلیے بھیجا۔ کونسل نے مارچ 2018ء میں پالیسی اور قانون کے مسودات پر اپنی تفصیلی رائے دی۔ وزارت نے پھر نومبر 2020ء میں نظرِ ثانی شدہ مسودہ کونسل کو بھیجا۔ اس پر غور کیلیے اپریل 2021ء میں کونسل نے ایک مشاورتی اجلاس بلایا جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ میں نے اپنی گزارشات میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور یک رکنی کمیشن کی رپورٹ پر تفصیلی تنقید کی اور ان کے مضمرات پر روشنی ڈالی۔ یک رکنی کمیشن نے بھی اپریل 2020ء میں قانون کا مسودہ تیار کیا تھا، لیکن اس مسودے پر کونسل کی رائے نہیں لی گئی۔قومی اسمبلی میں سابق وزیر مرحوم مفتی عبد الشکور کے دستخطوں سے پیش کیا گیا بل قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر اردو ترجمے سمیت موجود ہے۔وزارت کا اپنا تیار کردہ پچھلا مسودہ کیسے تبدیل ہوا اور اس کی جگہ یہ نیا مسودہ کیسے آگیا، یہ کہانی پھر سہی۔ اب مسودے کے متعلق چند نکات پر غور کریں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمان کے پاس اس موضوع پر قانون سازی کا اختیار ہے؟ آئین میں مذکور "وفاقی فہرست" میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے اس مقصد کیلیے پیش کیا جاسکے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے آئین کی دفعہ 144 کے تحت قرارداد کے ذریعے پارلیمان کو اس سلسلے میں قانون سازی کیلیے کہا ہے۔ یہ بذاتِ خود اس بات کا اعتراف ہے کہ اصلاً پارلیمان کے پاس اس موضوع پر قانون سازی کا اختیار نہیں ہے تو اس قانون کو وفاقی دار الحکومت اور باقی تین صوبوں میں کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے؟ پھر صوبائی اسمبلی کی قرارداد (نمبر 1186/2021ئ) میں تو صرف کمیشن بنانے کی بات کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں بل میں جو بہت ساری تفصیلات شامل کی گئی ہیںان کا تو قرارداد میں ذکر ہی نہیں۔ بل کی "وجوہات" میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے متعلق اقوامِ متحدہ کے اعلان کی ہم نے توثیق کی ہے جس کے ہم پابند ہیں۔ یہ بات حقائق اور قانون دونوں کے خلاف ہے کیونکہ یہ "اعلان" اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد ہے اور ایسی قراردادوں کی نہ توثیق کی جاتی ہے، نہ ہی یہ کسی ریاست کو پابند کرسکتی ہیں؛ یہ تو محض خواہش کے اظہار اور سفارش کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پھر اس "اعلان" میں وہ کچھ مانگا ہی نہیں گیا جو یہاں اس بل کے ذریعے دینے کی بات ہورہی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے میں بھی یہ تفصیلات نہیں ہیں۔ یہ تفصیلات صرف یک رکنی کمیشن کی رپورٹ میں ہی ملتی ہیں۔ پس وہی اس بل کا اصل ماخذہے! بل میں کئی ایسی شقیں ہیں جن کے اثرات بہت دور رس ہیں۔ مثلاً تعریفات کی دفعہ میں آئین کی اصطلاح "بنیادی حقوق" ترک کرکے اس کی جگہ "انسانی حقوق" کی اصطلاح شامل کی گئی ہے۔ یہ محض الفاظ کا اختلاف نہیں، بلکہ اس اختلاف سے تصورات کا اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح بل کی دفعہ 8 میں کمیشن کو مختلف عہدے اور اسامیاں (ماہرین، مشیر وغیرہ) تخلیق کرکے ان پر تعیناتی کا اختیار دینے کی بات کی گئی ہے۔ یہ اختیار تو قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ قانون بن گیا تو پاکستان کے روز مرہ کے مطابق "لٹ ہی مچ جائے گی"۔ بل کی دفعہ 3 کے مطابق کمیشن 30 ارکان پر مشتمل ہوگا جن میں 18 غیر سرکاری ارکان ہوں گے اور 12 مختلف سرکاری محکموں سے گریڈ 20 یا اس سے اوپر کے ملازم ہوں گے۔ اتنی بڑی فوج ظفر موج کا سرکاری خزانے پر کتنا بوجھ ہوگا، اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے۔ کمیشن کو وہ اختیارات دیے گئے ہیں جو آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھی نہیں ہیں! سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس اقلیتی کمیشن میں ہندوؤں سے 6، مسیحیوں (کے مختلف فرقوں)سے 4، سکھوں سے 2، بدھ ، کیلاش، بہائی اور پارسیوں سے 1،1 نمائندہ لینے کی بات کی گئی ہے لیکن قادیانیوں اور لاہوریوں کو، جو خود کو احمدی کہتے ہیں، نمائندگی نہیں دی گئی۔ کیا وہ اقلیتوں میں شامل نہیں؟ بل میں "اقلیت" کی تعریف وہی ہے جو آئین کی دفعہ 260 میں "غیر مسلم" کی ہے، لیکن وہاں تو نام لے کر کہا گیا ہے کہ قادیانی اور لاہوری، جو خود کو احمدی کہتے ہیں، غیر مسلم ہیں۔ اب دو ہی امکانات ہیں: یا تو بل بنانے والے ان کو غیر مسلم نہیں مانتے، یا وہ ان کیلیے وہ حقوق نہیں مانتے جو آئین اقلیتوں کو دیتا ہے۔ بل بنانے والے بتائیں کہ ان کے نزدیک ان لوگوں کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہے؟ اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق یہ بل 7 اگست 2023ء کو اسمبلی سے منظور کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس دن اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے ارکان کیا کررہے تھے؟ کیا علمائے کرام نے اردو ترجمہ پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی؟ یہ کیسا خوابِ غفلت ہے جس میں ہمارے علماء کرام مبتلا رہتے ہیں اور سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے لگتے ہیں؟