ملکی خود مختاری اور سلامتی کا انحصار خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے۔ریاستیں پسند و ناپسند اور جذبات کی بنیاد پر نہیں مفادات کو مد نظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی استوار کرتی ہیں۔مفادات کے حصول کیلئے اہداف مقرر کئے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت جب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھی۔ معاشی حالات اس قدر ابتر تھے کہ نواب آف بہاولپور مالی تعاون نہ کرتے تو پاکستان کے لئے سرکاری ملازمین کی پہلی تنخواہ ادا کرنا بھی ممکن نہ ہوتا۔ان حالات میں پاکستان امداد کے عوض امریکی کیمپ میں جانے پر مجبور ہوا۔امریکی خارجہ پالیسی میں’’ انکار‘‘ ناقابل معافی جرم تصور کیا گیا۔امریکہ نے اپنے مفاد کے لئے حکومتیں تبدیل کرنے یہاں تک کہ حکمرانوں کو قتل کروانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ایران کو تیل کے ذخائر امریکہ کے حوالے کرنے پر مائل کرنے سے انکار پر قتل کروایا گیا۔ قاتل سید اکبر خان کو افغان حکومت کے ذریعے 20ہزار روپے پستول اور گولیاں بھی امریکہ نے فراہم کیں۔ حسین شہید سہروردی کو خارجہ پالیسی متوازن کرنے کی پاداش میں اقتدار سے الگ کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے 65ء اور 71ء کی جنگوں میں امریکی بے وفائی کے نتیجے میں روس سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس، اسلامی بنک اور عربوں کو تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے راستہ دکھانے کی پاداش میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختہ پر جھولنا پڑا۔ضیاء الحق نے سوویت جنگ میں امریکی اتحادی بننے کے بدلے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے جرم میں جان دی۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے امریکی مفادات کے بجائے پاکستان کو ترجیح دی تو اقتدار سے نکال باہر پھینکے گئے۔مشرف کو افغان جنگ میں دوہری پالیسی اور افغان طالبان کی مدد کے جرم میں مقدمات اور جلاوطنی برداشت کرنا پڑی۔آصف علی زرداری کو چین سے تعلقات پر امریکی ناراضگی کا سامنا رہا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور امریکہ کے واحد سپر پاور بننے کے بعد امریکی خارجہ پالیسی اس قدر جارحانہ ہو گئی کہ امریکہ نے ناپسندیدہ حکمرانوں کو ہٹانے کے لئے ملکوں پر جنگیں مسلط کیں۔ عراق میں سیاسی چالوں سے صدام کا تختہ الٹنے میں کامیابی نہ ملی تو صدام کو ہٹانے کیلئے 5لاکھ عراقیوں کو قتل کرنے سے بھی گریزنہ کیا ۔افغانستان پر 20سا ل تک جنگ مسلط کئے رکھی، قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے لئے لیبیا کو خانہ جنگی میںکی آگ میں دھکیل دیا۔بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لئے شام میں پہلے باغیوں کو اسلحہ بارود فراہم کیا اہداف حاصل نہ ہوئے تو شام کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ امریکہ سے دوستی کے بارے میں تو شاعر کا یہ شعر ہی صادق آتا ہے: دیے ہیں داغ بہت اس کی دوستی نے تجھے اب اور دشمن جاں کو نہ آزما! اے دل ایران میں رجیم کی تبدیلی کے لئے میڈیا پراپیگنڈا اور پابندیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ روس اور چین نے امریکی بالادستی کو چیلنج کیا تو چین کے خلاف کوارڈ اتحاد بنا کر اور یوکرائن کو جواز بنا کر روس کی معاشی ناکہ بندی کا جواز بنایا جارہا ہے ۔ امریکہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں کس طرح مداخلت کرتا ہے اس کی داستان سابق رکن پارلیمنٹ یورپی یونین پال نٹال نے حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میںبیاںکی ہے۔کس طرح امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے 2014ء میں خانہ جنگی کو ہوا دینے کے لئے یوکرائن کی اپوزیشن اورسیاسی رہنمائوںپر سرمایہ کاری کی اورمنتخب صدر کو حکومت سے بیدخل کیاگیا ۔ امریکہ کا روس اور چین کے ساتھ تنائو عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ روس نے یو کرائن پر حملہ اس وقت کیا ہے جب وزیر اعظم عمران خان روس کے دورے پر تھے۔عمران خان کے امریکہ کو قطعی انکار ’’ایبسوٹلی ناٹ‘‘کہنے کے بعد امریکہ نے عمران خان کی حکومت کے خلاف اقدامات کا آغاز بھی کر دیاتھا۔سیاسی مبصرین سعودی عرب کی بھارت سے قربت کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔سعودی عرب اور بھارت کے مشترکہ اعلامیہ کی تقریب کے پس منظر میں جنرل نیازی اور جنرل اڑوڑا کے سقوط ڈھاکہ پر دستخط کرتے ہوئے تصویر لگانا ایک پیغام سمجھا جا رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف اندرونی طور پر سیاسی محاذ گرم کر دیا گیا ہے ۔وزیر اعظم کے دورہ روس کے اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی کے پیچھے عالمی قوتوں کا ہاتھ خارج ازامکان نہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن میں عالمی رہنمائوں سے معاملات طے کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امراللہ صالح سے بھی ملنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔وزیر اعظم کے دورہ روس کے پاکستان کے خارجی اور داخلی حالات پر اثرات لازمی مرتب ہونالازم ہے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ بارہا ففتھ جنریشن وار کی بات کر چکے ہیں۔پاکستان کی عسکری قیادت یقیناً اندرونی اور بیرونی سازشوں کا بخوبی ادراک بھی رکھتی ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی۔ان حالات میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ملکی سیاست میں کردار کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ چین اور روس سے تعلقات کی باضابطہ بنیاد بھی آصف علی زرداری کے دور میں رکھی گئی۔سابق صدر کو اس وقت کے عالمی دبائواور ہتھکنڈوں کا بخوبی علم بھی ہو گا۔یقیناً ان کو آج بھی یاد ہو گا کہ پاکستان کی خاطر انہوں نے کس قدر ذہنی دبائو برداشت کیا تھا یہاں تک کہ ان کو دبئی جانا پڑا۔سابق صدر کو یہ بھی احساس ہو گا کہ ان کے خلاف سیاسی چالوں کے مہرے بھلے ہی پاکستانی سیاستدان تھے مگر ان کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی تھیں۔عمران خان کی ہٹ دھرمی اور امریکہ کو مسلسل اکسانے کی پالیسی نے ان کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ اپوزیشن حکومت گرانے کے لئے عالمی معاونین اور حکومتی اتحادیوںکا سہارا تلاش کر رہی ہے۔ان حالات میں عمران خان کی حکومت کو اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ چودھری برادران اور آصف علی زرداری کے بعد خود عمران خان ہیں۔ملکی پالیسیوںمیں تسلسل اور پاکستان کی بقا کے لئے یقیناً عسکری قیادت بھی اپنا کردار ادا کرے گی لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران حکومت کے لئے عالمی سازشوں کا مقابلہ کرنا آصف علی زرداری کے بغیر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔