تخلیقی انسان ہمیشہ خود شناسی کے احساس سے بھرا ہوتا ہے۔اس کے اندر شعور ذات ، شعور زندگی اور شعور جمالیات عام لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اپنی ذات کے اظہار کی خواہش اسے بے چین رکھتی ہے ۔ یہ خواہش کبھی لفظوں کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے، کبھی اظہار کی خواہش رنگوں کے ذریعے کینوس پر اترتی ہے، کبھی کوئی کہانی بنتا اور موسیقی کی دھنیں بناتا ہے غرض ملکہ اظہار ذات کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تخلیقی روح رکھنے والی عورت اگر باورچی خانے میں بھی کام کرے گی تو اسے بھی آرٹ بنادے گی۔تخلیقی روح رکھنے والے لوگ ہجوم کی پیروی نہیں کر سکتے وہ ہر فیشن ہر ٹرینڈ کو فالو نہیں کرتے۔ بلکہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ان کے اندر کی دنیا ان پر ہمیشہ حاوی رہتی ہے۔تخلیقی روح رکھنے والا رابرٹ فراسٹ کے الفاظ میں متروک راستوں سے ہٹ کر چلتا ہے جیسے کہ فراسٹ کی نظم ہے۔ جنگل میں دو راستے تھے میں نے وہ راستہ چنا جس پر کوئی نہیں گیا تھا اور اسی چیز نے میری زندگی میں فرق پیدا کیا۔تخلیقی انسان قدرت کے مختلف مظاہر جیسے درخت ، ہوا ،بارش سے ایک حس تعلق رکھتا ہے۔وہ اپنی ذات کے ساتھ تعلق اور پھر کائنات کے ساتھ تعلق کی تفہیم کی کھوج میں رہتا ہے۔ایک تخلیقی شخص ہوا میں خوشبو کی سرسراہٹ محسوس کر سکتا ہے۔پھولوں کے رنگوں کو دیکھ کر متاثر ہوتا ہے درختوں سے بات کر سکتا ہے وہ آتے جاتے موسموں کی سرگوشی سنتا ہے۔ موسموں کا آنا جانا اس کے مزاج پر اثرانداز ہوتا ہے۔اسے خواب دیکھنا اچھا لگتا ہے اس کی امیجینیشن بہت طاقتور ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ چیزوں کے عمل پذیر ہونے سے پہلے بھی اس کے ہونے کو محسوس کر سکتا ہے یہ اس کی ایمجینشن کی طاقت ہے۔یہ شخص ایک مکمل پیراڈوکس ہوتا ہے خواب دیکھتا ہے مگر اتنا ہے عملیت پسند بھی ہوتا ہے۔تخلیقی شخص بہت کم عمری ہی سے زندگی کا شعور بہت گہرا رکھتا ہے وہ اندرونِ ذات سے بیرون ذات تک پھیلی چیزوں کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور پھر اس کا اظہار چاہتا ہے۔ایک تخلیقی شخص ہمیشہ منفرد سوچ رکھتا ہے وہ نقالی کو اپنے لئے جرم سمجھتا ہے۔ ہمارے بہت سے بچے اور نوجوان تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں لیکن انہیں رہنمائی نہیں ملتی کہ وہ ان تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے نکھاریں جو جوہر اللہ تعالی نے ان کے اندر رکھا ہے اس جوہر کو پنپنے کے لیے سازگار ماحول ضروری ہے۔ہمارے ٹی وی ڈراموں ناولوں اور کہانیوں میں شاعروں مصوروں اور صحافیوں کو ہمیشہ غیر منظم شخصیت کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔پڑھنے والوں کے اندر یہ تصور راسخ ہو جاتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک لوگ غیر منظم ہوتے ہیں ان کی چیزیں ترتیب سے نہیں ہوتی ان کے بال۔بکھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ان کے سونے جاگنے کھانے پینے کے کوئی اوقات مقرر نہیں ہوتے کیونکہ وہ تخلیقی لوگ ہوتے ہیں۔یہ غلط تصور ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں زیادہ پروڈکٹو ہوتے ان کی زندگی اتنی ہی منظم اور ترتیب میں ڈھلی ہوتی ہے۔ ان کے سونے جاگنے اور کھانے پینے کے اوقات مقرر ہوتے ہیں۔لکھاریوں کا تصور بھی ہمارے ہاں غیر منظم اور بے ترتیب افراد کا بنایا گیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ہزاروں نظمیں لکھنے والا رابندر ناتھ ٹیگور اپنی زندگی میں انتہائی منظم شخص تھا وہ صبح سحری کے وقت اٹھتا باقاعدگی سے ورزش کرتا مقررہ پر اپنا کام شروع کرتا۔بانو قدسیہ روزانہ ایک ہی وقت پر بیٹھ کر اپنے افسانے اور ناول پر کام کرتی تھیں۔اشفاق احمد نے انہیں سمجھایا تھا کہ روز ایک مقررہ وقت پر لکھنے بیھٹو گی تو خیال منظم طریقے سے ہاتھ آئے گا۔مستنصر حسین تارڑ برسوں سے لکھنے ایک کی روٹین فالو کر رہے ہیں وہ ہر روز لکھتے ہیں کبھی ناغہ نہیں کرتے۔ندیم قاسمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فنون کے دفتر میں بیٹھ کر ملنے والوں سے باتیں بھی کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ ڈاک سے آنے والے خطوں کے جواب بھی دیتے رہتے وہ اتنے منظم تھے کہ چیزوں کو اس کی ترتیب سے رکھتے اور کبھی کسی خط کا جواب لیٹ نہ کرتے۔ تخلیقی لکھاریوں میں ایک خاص طرح کی حس جمالیات ہوتی ہے اسی لئے انہیں اپنے آس پاس ترتیب اور خوبصورتی پسند آتی ہے وہ اپنے ماحول کو صاف، ترتیب میں ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتے ہے۔اس چیز کا تجربہ مجھے وقت کے ساتھ ہوا۔بنیادی طور پر میرے اندر ترتیب اور سلیقہ نہیں تھا میں کام کرتے وقت چیزوں کو بکھیرے رکھتی رفتہ رفتہ مجھے احساس ہونے لگا کہ جب تک میرے آس پاس بکھراؤ اور الجھاو رہتا ہے۔اب میں ایک منظم اور ترتیب میں ڈھلے ہوئے ماحول میں بیٹھ کر ہی لکھ سکتی ہوں۔کھڑکی سے آتی ہوئی قدرتی روشنی اور سبزے سے بھرا ہوا منظر میرے خیالات کو مہمیز دیتا ہے۔تخلیقی شخص ہمیشہ کمفرٹ زون میں خوش نہیں رہتے بلکہ وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر زندگی کو دیکھنااور محسوس کرنا چاہتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ ہر تخلیقی شخص زندگی میں ہمیشہ سیکھنے پر یقین رکھتا یے۔سیکھنے سے ان کے اندر جمی کائی اترتی ہے اور تازگی کا احساس جنم لیتا ہے۔تخلیقی لوگ یکسانیت سے بور ہونے لگتے ہیں وہ اپنی یکسانیت کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔شب و روز کی یکسانیت سے ان کا دل اکتانے لگتا ہے۔یہ عجیب پیراڈاکس ہے کہ ایک طرف زندگی ، تغیر سے بھری ہے اور ہر گززتا ہوا لمحہ تبدیلی کا نقیب ہے دوسری طرف، شب وروز یکسانیت کا بوجھ ڈھوتے ہیں۔ زندگی کا یہی پیراڈاکس تخلیق سے بھر پور دلوں میں اداسی پیدا کرتا ہے اسی اداسی سے شاعری جنم لیتی ہے ،کہانیاں بنائی جاتی ہیں نظمیں لکھی جاتی ہیں اور کبھی کبھی اخبار کا کالم بھی۔۔!!