تب فیروز پور روڈ پر اس قدر رش نہ تھا۔ سکول کے زمانے میں کبھی کبھار مزنگ چونگی سے گزر ہوتا۔ جہاں بس کھڑی ہو تی وہاں صنم سینما ہوا کرتا۔ شائد ساتویں آٹھویں جماعت میں تھا جب صنم سینما کی جگہ صنم آرکیڈ بنا دیا گیا۔ہر وقت فلم بینوں میں گھرا مزنگ چوک یک بیک ویران ہو گیا،سینما میں کھرا کھجور کا پیڑ صنم آرکیڈ کی دکانوں کے سامنے آگیا۔ سڑک کے دوسری طرف پیلے رنگ کی قلعی والا گھر میری توجہ کھینچ لیتا۔ سریوں سے بنا گیٹ جس میں سے راہ چلتے ہمیںگھر کے سامنے والا پورا حصہ نظر آتا۔ پورچ جو گاڑی کھڑی کرنے کے لئے بنایا گیا ہو گا۔ گیٹ سے پورچ کی طرف جائیں تو السٹونیا کے دو گھنی چھتری والے پیڑ۔ گیٹ سے داخلی راستہ سارا سرخ اینٹوں سے ڈھکا ہوا۔ ایسے گھر ڈائجسٹوں میں پینسل سے بنے خاکوں میں نظر آتے تھے۔ گزشتہ چالیس سال میں جب بھی اس سڑک سے گزرا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس پر نگاہ نہ ٹھہرتی ہو۔ ایک بار دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اس کا پچھواڑہ جیل روڈ کی طرف کسی گلی میں پڑتا ہے۔ ممکن ہے اس طرف کوئی راستہ بھی ہو۔ حیرت یہ کہ کبھی یہاں کوئی انسان دکھائی نہیں دیا۔ برسوں پہلے دیکھتا تو پتہ چلتا یہ گھر کسی آسیب کا ٹھکانہ ہے۔ محاورہ سنتے ہیں کہ فلاں جگہ اداسی بال کھولے کھڑی تھی‘ مزنگ چونگی بس سٹاپ پر جہاں صندل کا شربت آج بھی تیس روپے کا گلاس مل جاتا ہے وہاں سے اچھرہ کی طرف چلیں تو کوئی دس گز کے فاصلے پر بائیں ہاتھ یہ مکان ہے۔ مزنگ چونگی چوک سے اس مکان تک سینٹری کی دکانیں بن گئی ہیں۔ جب فیروز پور روڈ کی توسیع نہیں ہوئی تھی تو اس مقام پر سب سے نمایاں چیز یہی پینسل سے بنے خاکے جیسا مکان تھا۔ میٹرو بس کے لئے اوور ہیڈ روڈ بنا تو فیروز پور روڈ کے دونوں جانب کی دکانیں اور مکان توڑ کر ان کا کچھ حصہ سڑک میں شامل کر لیا گیا۔ مجھے یاد ہے یہاں کی تاجر تنظیمیں مسلم لیگ ن کی حامی ہوا کرتی تھیں۔ سڑک کی توسیع کے معاملے پر تاجر دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ اداسیوں سے بھرا یہ مکان تب بھی بچ گیا۔ سامنے کی دیوار اور گیٹ کا کچھ حصہ توسیع میں آیا۔ راہداری‘ کھلا صحن‘ پورچ اور السٹونیا کے پیڑ سڑک کی پہنچ سے ابھی دور تھے۔ ایک روز میٹرو بس سے سفر کرنا پڑا۔ میں کھڑکی کے قریب کھڑا تھا۔ زمین سے پچیس فٹ کے قریب بلند سڑک سے بس گزری تو میری نظریں حسب معمول پیلے مکان کو تلاش کرنے لگیں۔ زن کر کے بس گزر گئی لیکن میری آنکھ میں اس مکان کا ایک نیا منظر بھر گئی۔ میں نے ہمیشہ پھاٹک کے اندر سے پورچ‘ السٹونیا کے پیڑ‘ سرخ اینٹیں اور اداسی دیکھی تھی۔ گویا ایک ہی تصویر تھی۔ میٹرو بس نے اس تصویر کا ایک دوسرا گوشہ میرے سامنے کر دیا۔ ہو سکتا ہے آپ مجھے سنکھی اور دیوانہ سمجھیں جو اتنے برسوں سے ایک مکان کے تجسس میں مبتلا ہے۔ سچ پوچھیں تو میں ایسا ہی ہوں۔ میرے اندر تجسس بھرا ہوا ہے۔ اکثر پودوں کے پتے اور نامانوس پھل چکھ لیتا ہوں کہ ذائقے اور تاثیر کا علم ہو سکے۔ نئے علاقوں میں جا کر آسودہ ہو جاتا ہوں۔ ان لوگوں کو قریب محسوس کرتا ہوں جنہیں لوگ دور کر دیتے ہیں۔ اندھیرے میں بیٹھ جایا کرتا کہ چیزیں کالک میں گم ہو کر کیسی شکل بناتی ہیں۔ سینٹری اور ہارڈوئیر کی دکانوں میں تنہا کھڑا یہ مکان بھی ایسا ہی ہے جس سے میں یہاں سے گزرتے ہوئے لاتعلقی کا رویہ اختیار نہیں کر سکتا۔ ایک کام کے سلسلے میں اسلامیہ کالج سول لائنز گیا۔ واپسی پر رخ اس طرف ہو گیا۔ سوچا اتنے برسوں سے دور دور رہا اب کیوں نہ اس مکان کے بارے میں کسی سے پوچھ لیا جائے۔ پھاٹک سے پہلے بریک لگائی۔ نظر پھاٹک کے سریوں سے پار ہوتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔ پیلی قلعی پر سیاہی مائل داغ ابھر آئے تھے۔ ایسا عموماً ان درو دیوار پر ہوتا ہے جہاں مدتوں رنگ روغن نہ ہوا ہو۔ اندر سرخ اینٹوں والا فرش جو کبھی سڑک سے تھوڑا بلند ہوتا تھا اب کوئی ایک فٹ نیچے ہو گیا ہے۔ مٹی کا کچھ ملبہ بھی السٹونیا کے پیڑوں کے قریب نظر آیا۔ پیڑ بہت اونچے ہو چکے ہیں۔ سامنے کا صحن پورا ان کی چھائوں میں سبز سا ہو گیا ہے۔ پورچ اور السٹونیا کے پیڑوں کے درمیان میں ٹوٹے فرش سے گلو کی بیلیں نکلیں۔ بیلیں درختوں پر چڑھیں اور وہاں سے پورچ تک لٹک رہی ہیں۔ ایسا منظر وزیر خان کی بارہ دری کے اس حصے میں دیکھا تھا جو پچھلے ستر سال سے چار دیواری میں قید ہے۔ مجھے لگا اس مکان میں کوئی آسیب آکر رہتا تھا۔ شاید وہ آسیب بھی مر کھپ گیا ہے۔ مکان لاوارث پڑا ہے۔ کچھ نہیں تو تین چار ارب روپے کی جائیداد ہے۔ وہ شہر جہاں لوگ دو فٹ جگہ نہیں چھوڑتے وہاں یہ مکان کیسے بچا ہوا ہے۔ سوال پیدا ہوا کہ کوئی تو اس کا مالک ہو گا۔ آخر ڈیڑھ سو سال کے لگ بھگ عمر کا یہ مکان ہمیشہ سے تو تنہا اور اکلاپے کا شکار نہیں ہو گا۔ میں پھاٹک کے پاس سینٹری کی دکان میں داخل ہوا۔سامنے سیلز مین بیٹھا تھا۔ میں نے یہ تو نہیں بتایا کہ میں صحافی ہوں‘ بس یہ کہا کہ تاریخی مقامات کی کھوج لگانے والا ایک طالب علم اور ساتھ والے مکان کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ اس نے ٹیلی فون پر مصروف ایک کھچڑی داڑھی والے کی طرف اشارہ کیا کہ یہ دکان اور ساتھ والے مکان کے مالک ہیں‘ ان سے پوچھ لیں۔ ایک دو منٹ بعد حضرت جی فارغ ہوئے۔ میں نے مدعا بیان کیا تو بولے جی یہ ہمارا مکان ہے‘ میں نے پوچھا کب تعمیر ہوا۔ بولے پارٹیشن سے پہلے کا بنا ہے۔ میں نے کہا یہ تو دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ برسوں سے اجڑا ہوا کیوں ہے۔ کہنے لگے بڑے بھائی موجود نہیں وہ بتا سکتے ہیں۔ میں نے کہا میں اپنا کارڈ دے دیتا ہوں بھائی سے کہیں جب فرصت ہو بات کر لیں۔ دکاندار کچھ تیکھے لہجے میں بولا: بھائی صاحب صاف بات ہے کہ ہم آپ کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ میں باہر نکل آیا۔ رخصت والی نظر مکان پر ڈالی۔ مجھے لگا مکان کہہ رہا ہو ’’دوست ملتے رہنا‘ مجھے قبضہ مافیا سے ڈر لگا رہا ہے۔‘‘