کافی تاخیر سہی، انتخابی حکام نے بالآخر خیبر پختونخوا میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج جاری کر دیے ہیں جن میں نیبر ہڈ اور ویلج کونسلزشامل ہیں۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی بدولت تمام سطح پر بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے۔ کچھ عرصے سے ماہرین جو کہہ رہے تھے وہ نتائج نے سچ ثابت کردیاہے۔ یعنی سیاسی پارٹیاں نچلی سطح پر موجود ہی نہیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے جس نے انہیں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرانے سے روکا ہوا تھا۔ اپنے ایک پہلے مضمون میں ،میں نے دلیل دی تھی کہ سیاسی اشرافیہ پارٹیوں کو منظم کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ ممبرشپ پر مبنی تنظیموں میں جمہوری اور آزاد بننے کا فطری رجحان ہوتا ہے جو انکے لیے قابل قبول نہیں۔ خیبر پختونخوا کے مقامی انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرنے سے کچھ دلچسپ سماجی وسیاسی رجحانات سامنے آئے ہیں۔اول، مقابلہ کرنے والے اورجیتنے والے امیدواروں میں آزاد امیدواروں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، بنوں، کرک، ہنگو، خیبر اور باجوڑ میں مقابلہ کرنے والے امیدواروں میں آزاد امیدواروں کا حصہ 72 فیصد سے 80 فیصد کے درمیان تھا، جب کہ پشاور میں یہ تقریباً 50 فیصد۔ نوشہرہ میں بھی کل 893 امیدواروں میں سے صرف 179 کا تعلق جماعتوں سے تھا جبکہ 713 (80%) آزاد تھے۔ عام انتخابات کے برعکس، جس میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی اکثریت ہار جاتی ہے، خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں ان میں سے ایک بڑی اکثریت جیت گئی۔ ہنگو اور خیبر میں بالترتیب 74% اور 59% آزاد امیدواروں نے نام نہاد بڑی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دی۔ یہ واقعی ایک بے مثال سیاسی رجحان ہے۔ الیکشن کمیشن کے فارم سے پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف نے 17 میں سے زیادہ تر اضلاع میں امیدوار کھڑے ہی نہیں کیے تھے۔ یہ غالباً حکمران جماعت نے اپنے ارکان کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آیا یہ شکست کے خوف کی وجہ سے کیا گیا یا پارٹی کے بہت سے ارکان ایک ہی نشست سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ میں نے کچھ باخبر لوگوں کے ساتھ بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ دونوں عوامل نے پارٹی کی حکمت عملی کو متاثر کیا۔ دوم، اگرچہ نام نہاد لبرل اور سیکولر پارٹیوں نے بڑے شہری مراکز میں ویلیج اور نیبر ہڈ کونسل کے لیے اچھی خاصی تعداد میں امیدوار کھڑے کیے لیکن دیہی اور دور دراز کے اضلاع میں ان کی موجودگی بہت کم رہی۔ دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ مذہبی جماعتیں خیبر پختونخوا کے تمام 17 اضلاع ، دیہی اور شہری دونوں علاقوں، میں وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ نیز ان کے امیدواروں کی عددی طاقت لبرل پارٹیوں کی مشترکہ طاقت سے کہیں زیادہ تھی۔ باجوڑ میں دو مذہبی جماعتوں نے 272 نشستیں حاصل کیں جبکہ تین لبرل جماعتوں (اے این پی، پی پی پی اور مسلم لیگ ن) نے صرف 87 نشستیں۔ بنوں میں بھی تین بڑی لبرل جماعتوں نے صرف 19 امیدوار کھڑے کیے جب کہ دو مذہبی جماعتوں نے 143 امیدوار کھڑے کیے تھے۔کیا مذکورہ بالا رجحانات بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی برقرار رہیں گے؟ زیادہ امکان ہے کہ آزاد امیدواروں کا حصہ زیادہ رہے گا اور وہ زیادہ تر نشستوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ یوں تحریکِ انصاف کے لیے کچھ اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے بہت سے جھٹکے منتظر ہیں۔ مذہبی جماعتیں 2015 کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔سیاسی ماہرین، دانشوروں، اور سول سوسائٹی سے وابستہ افراد کو اپنی توجہ مقامی سیاست اور مقامی طرز حکمرانی پر آزاد امیدواروں کے ممکنہ اثرات کو سمجھنے کی طرف مرکوز کرنی چاہیے ۔ ان کے پاس کیا مواقع ہیں اور سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کے لیے ان سے کیسے جوڑ توڑ کر رہی ہے؟ چونکہ آزاد امیدواروں کی عددی طاقت زیادہ تر اضلاع میں تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے، اس لیے وہ موجودہ جماعتوں میں شامل ہونے کے بجائے اپنی پارٹی بنا سکتے ہیں۔ چونکہ وہ مقبول ہیں، ان کے پاس قانونی حیثیت ہے اور اس طرح وہ مقامی جمہوری طرز حکمرانی کے بیج بو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اچھی اور جامع طرز حکمرانی کا ایک چارٹر ان کے ذریعے تیار کیا جا سکتا ہے۔ اسے اپنانے، عمل درآمد اور اور حمایت کیلئے وسیع تر سول سوسائٹی اور دانشوروں کیساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے۔جو لوگ موجودہ پارٹیوں میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں اپنی طاقت کا احساس ہوناچاہیے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کو اس کے برعکس ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ لہٰذا انہیں پارٹیوں کی جمہوریت سازی اور جامع طرز حکمرانی کیلئے سیاسی قیادت سے انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ چونکہ مقامی کونسلوں میں پسماندہ طبقات کے نمائندے ہوتے ہیں، اس لیے وہ واقعی جامع طرز حکمرانی اور جمہوری سیاست کیلئے زمین ہموار کر سکتے ہیں۔اگر آزاد امیدوار بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بڑی تعداد میں جیت جاتے ہیں تو وہ بامعنی اصلاحات پر زور دینے کے لیے کافی سماجی و سیاسی سرمایہ پیدا کریں گے۔ تاہم اس کو حقیقت بنانے کے لیے شعوری کوشش کا آغاز ہونا چاہیے۔ اگرچہ میں خود سول سوسائٹی کی ایک تنظیم سے وابستہ ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ فنڈز سے چلنے والی این جی اوز یہ کردار ادا نہیں کر سکتیں۔ وہ صرف مہمیزکے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ بہت سے لکھاری ناقص حکمرانی پر قلم اٹھاتے ہیں اور اسکے لیے کرپٹ اشرافیہ ، سیاسی و انتظامی ڈھانچے اور ناقص فیصلہ سازی کے عمل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اگرچہ وہ حالات کا تجزیہ اپنے مخصوص انداز میں، نہایت خوبی سے کرتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ وہ اجتماعی طور پر کام کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور پسماندہ آبادی کے ساتھ کام کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ کامیابی کے اجزاآزاد امیدواروں کی صورت میں دستیاب ہیں جنہوں نے روایتی جماعتوں کو زیر کر لیا ہے۔ اگر وہ نام نہاد بڑی جماعتوں کو شکست دے سکتے ہیں تو وہ انتہائی ضروری تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ان کا ساتھ دینا چاہیے۔