خیبرپختونخوا میں حال ہی میں ہونے والے مقامی کونسلوں کے انتخابات میں خواتین سمیت آبادی کے پسماندہ طبقات کے لیے مخصوص نشستوں پرمقابلہ کی شرح تشویشناک حد تک کم رہی۔ مزیدپریشانی اس لئے بھی ہے کہ یہ چناوجماعتی بنیادپرہوئے تھے۔ بیس سال میں ہم نے کتنی سماجی اور معاشرتی ترقی کی اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ 2001 اور 2005 کے غیرجماعتی مقامی حکومتوں کے چناومیں امیدواروں کی شرح شرکت بہترتھی۔ذرا سوچئے کہ چالیس فیصدخواتین، اکیس فیصدنوجوانوں ، بارہ فیصدکسان اور مزدور نشستیں بلا کسی مقابلہ کے پرہوگئیں۔ کتنی نشستیں خالی رہ گئی ہیں کسی کو معلوم نہیں کیونکہ الیکشن کمشن کئی دن گزرجانے کے باوجودابھی تک مخصوص نشستو ں کے انتخابی اعدادوشمارشائع نہیں کرسکا۔ جبکہ میئرز اور چیئرمین کے چناوکی تفصیلات موجود ہیں اور اس سے اندازہ ہوتاہے کہ چیئرمین کی ایک نشست پراوسط گیارہ امیدوارمیدان میں تھے۔ گوکہ30 فیصد (2032) کے لگ بھگ جنرل کونسلرز بلا مقابلہ کامیاب ہوگئے پھربھی ایک نشست کیلئے تین تین امیدوار موجود تھے۔ خیبرپختونخوا کی نوبڑی سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا۔ پی ٹی آئی نوجوانوں کی جماعت ہونے کادعویٰ کرتی ہے، اے این پی اور پی پی پی ترقی پسندایجنڈے کی چیمپئن ہیں۔ اس کے باوجود، وہ 17 اضلاع میں چند سو نشستیں بھرنے کے لئے نوجوانوں، خواتین، کسانوں اور مزدوروںکومتحرک کرنے میں ناکام رہیں۔میں نے پچھلے تیس سالوں میں تمام صوبوں کی سینکڑوں کمیونٹیزکے ساتھ کام کیاہے۔ اس طویل اور متنوع تجربہ کی بنیادپر،میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ تقریباً ہر جگہ مقامی اشرافیہ نے کمیونٹی پر مبنی گاؤں کی تنظیموں پرقبضہ کرنے کی کوشش کی اور جب ایساناکرسکے تو اسکی تشکیل کوسبوتاژکرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ لگتاہے اشرافیہ چاہے گائوں کی ہویاقومی سطح کی، وہ جمہوری اداروں سے خوف زدہ رہتی ہے۔ کیونکہ ایسے اداروں میں بحث، مباحثہ اور شراکتی فیصلہ سازی لازم ہوتی ہے ، جو جاگیردارانہ ذہنیت کے لیے قابل قبول نہیں ۔ کیونکہ اس سے ان کے اختیار اور طاقت کو نقصان پہنچتا ہے۔ وہ تمام زوال پذیر روایات کے پاسبان بھی ہیں جن میں پدرشاہی اور رعب و دبدبہ لازم ہے۔لیکن اسکے باوجودوہ سب سے زیادہ خوفزدہ اور غیر محفوظ نظر آتے ہیں۔ تعجب کی بات نہیں کہ زیادہ تر اشرافیہ خواہ وہ گاؤں میں ہو یا اوپری سطح کی، نفرت انگیزی اور اصلاحات کی مخالفت کرتی ہے۔ وہ تقریباً ہر روز بہت سے عام لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں جس سے انکے خلاف نفرت جنم لیتی ہے۔ ذرا اس پر غور کریں۔ آ خر اشرافیہ مسلح محافظوںکے بغیراپنے گھروںاور دفاتروںسے باہرکیوںنہیںنکلتی؟ اوروہ اپنی اس پوزیشن کا دو دھاری تلوار کے طور پر استعما ل کرتی ہے۔ ایک طرف وہ دولت اور بندوق کی نمائش کرکے عام لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے لوگوں پر مزید اختیارات کے لیے اپنا تسلط دکھا کر اعلیٰ اشرافیہ سے مراعات حاصل کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کے کردار پر بھی کچھ بحث کی ضرورت ہے۔ اگرچہ مزدوروں/کسانوں کے لیے مخصوص 2383 نشستوں میں سے 285 (12%) بلامقابلہ پرہوگئی تھیں، لیکن لگتاہے کہ بلا مقابلہ جیتنے والے زیادہ تر امیدوار بظاہر مزدور یا کسان کی قانونی تعریف کے اوپرپورانہیںاترتے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق، کسان سے مراد وہ شخص ہے جو بے زمین کاشتکار ہے یا وہ جو پانچ ایکڑ سے زیادہ زمین کا مالک نہ ہو اور اسکاگزارہ صرف اسی پرہو۔" ایکٹ میں کارکن کی تعریف "ایک ایسا شخص ہے جس کاگزارہ صرف اسکی مزدوری پرہو۔ کسان اور مزدورکی سیٹوںپرحصہ لینے والے امیدواروں کی ایک بڑی تعدادجانچ پڑتال کے مرحلہ پرہی چناوکے عمل سے باہرہوجاتی اگر ان کے معاشی حال کاجائزہ لیاجاتا۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میںبھی ایسے ہی رجحانات دیکھنے کوملے تھے۔ مثال کے طور پر، ہماری تنظیم نے اسلام آبادکے لوکل کونسلرزکے پیشوں کی چھان بین کی جنہوں نے 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں کسانوں اور مزدوروں کے کوٹے کی نشستوں کے اوپر الیکشن لڑا تھا۔ ہم نے کونسلرز کے انٹرویوز کئے۔ ان کی اجازت سے ہمارے سروے کرنے والوں نے ان کے گھروں اور کاروباری احاطے کی تصاویر بھی لیں۔ عام انتخابات کی طرح بلدیاتی کونسل کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار بھی کاغذات نامزدگی اور اثاثوں کے اعلان کے فارم بھرتے ہیں۔ ہم نے الیکشن کمیشن سے ان فارموںکی کاپیاںحاصل کیں۔ ایک کوچھوڑکر تمام ریٹرننگ افسران نے خوشی سے فارموں کی دستخط شدہ کاپیاں ہماری ٹیموںکوفراہم کیں۔ تعجب کی بات یہ نکلی کہ صرف 11% کونسلرزہی کسان یامزدورکی قانونی تعریف پرپورااترے، جب کہ 53% نے تسلیم کیاکہ وہ پراپرٹی ڈیلرز اور کاروباری لوگ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب نے اپنے نامزدگی فارم پربھی یہی لکھاتھا۔ اس کے باوجودریٹرننگ افسران نے انہیںالیکشن لڑنے دیا۔ کیا آر اوز کی جانب سے یہ سنگین غفلت نہیںتھی؟ اس کے باوجودانہوںنے انہیںنااہل نہیںکیا۔ سب سے دلچسپ پہلویہ تھاکہ اسلام آباد میٹروکارپوریشن کے تین ڈپٹی میئرز میں سے ایک نے خود کوکسان کی نشست پر پہلے منتخب کرایا۔ یہی نمونہ ہمیں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات 2015 میں بھی ملا۔ یہ بحث معقول معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، خواتین گروپس اور ٹریڈ یونین تمام بلدیاتی انتخابات میں خواتین، نوجوانوں اور کارکنوں کی کافی تعداد کو امیدواروں کے طور پر متحرک کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور 2001 کے بعد سے اب تک کسی بہتری کے آثار نظر نہیںآئے. الیکشن کمیشن سے یہ توقع کرنا جائز ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر وہ امیدوار جو مزدور یا کسان کے طور پر الیکشن لڑ رہا ہے وہ قانونی تعریف کو پورا کرے۔ مزیدبرآں، یہ انتہائی شرمناک پہلوہے کہ سیاسی اشرافیہ جسے جمہوری روایات کوسینچناجاہیے وہ نچلی سطح پرپارٹی چیپٹر کو منظم اور جمہوری بنانے میں کم سے کم دلچسپی لیتی ہے۔