بھارتی معاشرے میں انتہا پسندی کا رجحان بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے ہمیشہ مقامی آبادی کو اپنے اقتدار میں شریک کیا اور انہیں فوج اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز کیا۔ مگر اس کے جواب میں ہمیشہ نفرت ، غداری اور دھوکہ ہی ملا۔ آج بھی مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے والے واقعات کو مختلف مقامات پر دہرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا عرصہ حیات اب ان مٹھی بھر لوگوں کی مرضی و منشاء میں پھنسا ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اس وقت ایسے لوگ قیادت کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں جو صرف فرقہ پرستی کو اپنی پالیسی بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں او ررہنماؤں کی بنائی نشانیوں اور ملکی تاریخ کو مسخ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔آج کل انتہا پسند مسلم اکابرین کے پیچھے پڑے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شرپسندوں کا ہدف رہی ہے لیکن ملک میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کے رہنما ستیش کمار نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور کے نام لکھے گئے خط میں یونیورسٹی میں آویزاں محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیااور اب ایک بھارتی نیوز چینل کے دعوی کے مطابق قائداعظم کی تصویر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ یونین آفس سے غائب ہوگئی ہے۔ تاہم اس حوالے سے اب تک کچھ سامنے نہیں آیا کہ یہ تصویر کس نے ہٹائی ہے۔ محمد علی جناح ؒکو 1938 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی رکنیت دی گئی تھی اور ان کی تصویر دیگر رہنما ؤں کے ساتھ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ یونین آفس میں لگائی گئی تھی۔ اس سے قبل یونیورسٹی کے ترجمان شافع کدوائی نے تصویر کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ محمد علی جناح اس جامعہ کے بانیوں میں سے تھے اور ان کی یہ تصویر کئی عشروں سے یہاں لگی ہوئی ہے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ تنظیم کے ہال میں نصب بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر ہٹائے جانے پر ہنگاموں کے دوران سوشل میڈیا پر ویڈیو وائر ل ہورہی ہے جس میں آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے طلبا نظر آرہے ہیں۔اس ویڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے یہ اے ایم یو کا ہوسکتا ہے۔ اس ویڈیو میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ نے بھارت کے خلاف نعرے لگائے۔ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بابائے سید گیٹ پر بنائی گئی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ ویڈیو کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے اور جلد اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جائیگا۔ پولیس نے قائد اعظم کی تصویر کی توہین اورہنگامہ برپا کرنے کے الزام میں ہندونواز طلبا تنظیم کے رہنما امیت گوسوامی اور یوگیش واشنے کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ پولیس کے مطابق دونوں ملزمان نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر آگ بھڑکانے والا مواد پوسٹ کرکے امن کو تباہ کرنے کی کوشش کی جس کے باعث انتظامیہ کو شہر میں انٹرنیٹ سروس عارضی طور پر معطل کرنا پڑی۔طلبہ کا کہنا ہے کہ ملزموں کیخلاف’’ راسوکا‘‘ قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ اے ایم یو میں پھیلی کشیدگی کے پیش نظر امتحانات ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر زیڈ کے فیضان نے کہا کہ محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال میں 1938ء سے آویزاں ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے لائف ممبر تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ کو اس پر فخر ہے۔ تصویر کے خلاف ہندو احیا پسند تنظیموں ہندو جاگرن منچ، ہندو یووا واہنی اور بی جے پی کی طلبہ شاخ اے بی وی پی کے کارکنوں نے بدھ کو مسلم یونیورسٹی میں گھسنے کی کوشش کی۔ مشتعل مظاہرین نے محمد علی جناح اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور کے پتلے نذرِ آتش کیے اور ان کے خلاف نعرے لگائے۔ایک اطلاع کے مطابق سردست محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال سے ہٹا دی گئی ہے۔ ایک خبر میں طلبہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صفائی کی وجہ سے ہٹائی گئی جسے پھر لگا دیا جائے گا۔ محمد علی جناحؒ کی تصویر کے بہانے مسلم یونیورسٹی کو ہدف بنانے کی کوشش کے بعد کئی حلقوں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اتر پردیش کی ریاستی حکومت میں بی جے پی کے ایک وزیر سوامی پرساد موریہ نے بھی علی گڑھ کے بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ کے مطالبے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ایک گھٹیا اقدام قرار دیا ہے۔ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر مشکور احمد عثمانی کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح کی تصویر یونین کے پروٹوکول کے تحت لگائی گئی ہے کیوں کہ یونین یونیورسٹی جس کا بھی خیر مقدم کرتی ہے اس کی تصویر آویزاں کرتی ہے۔ یونین ہال میں گاندھی جی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین سمیت متعدد رہنماؤں کی تصویریں آویزاں ہیں۔کئی دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی بی جے پی اور اس کے کارکنوں کی کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا ہے کہ آزادی کے 70 سال بعد جناح کی تصویر ہٹانے کا خیال آیا۔دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے گفتگو کرتے ہوئے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ 2019ء کے عام انتخابات سے قبل ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ محمد علی جناح کو گاندھی جی نے ہندو مسلم بھائی چارے کا سفیر کہا تھا۔آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی بنانے میں جناح کا بھی کردار رہا ہے۔ آج وہ لوگ جناح کی مخالفت کر رہے ہیں جن کا ملک کی آزادی میں کسی قسم کا کوئی کردار ہی نہیں رہا۔ ایک اطلاع کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد اب یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاںؒ کی تصویر پر بھی انتہا پسند ہندوؤں نے احتجاج کیا اور غنڈہ گردی کرتے ہوئے پی ڈبلیو ڈی کے گیسٹ ہاوس میں آویزاں سرسید احمد خاں کی تصویر ہٹا دی گئی۔ جس کی اطلاع ملنے پر یونیورسٹی کے طلبہ مشتعل ہو گئے اور انتہا پسند ہندوؤں نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا نے ایک بار پھر موقف اپنایا ہے کہ وہ کسی صورت کسی کو بھی قائد اعظم محمد علی جناحؒاور سرسید احمد خان کی تصویریں ہٹانے کی اجازت نہیں دیں گے۔کشیدہ صورتحال کے پیش نظر یونیورسٹی میں اضافی سیکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے۔ علی گڑھ کے علاوہ شملہ میں جو ایڈوانس سٹڈی سینٹر ہے جہاں پہلے وائس رائے کا ریزیڈنٹ ہوتا تھا وہاں بھی محمد علی جناح کی تصویر ہے۔ کہیں بھی ایسا قانونی فریم ورک نہیں ہے جس میں یہ ہدایت دی گئی ہو کہ ان کی تصویر کو ہٹانا ہے۔بھارت میں ہندو تنظیمیں اس سے قبل دہلی کی جے این یو، حیدرآباد یونیورسٹی اور دہلی کے رام جس کالج کو نشانہ بنا چکی ہیں جبکہ علی گڑھ ان کے نشانے پر ایک عرصے سے رہا ہے۔