آصف علی زرداری، ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے۔ کہنا چاہیے کہ بْرے کام کا بْرا نتیجہ۔ اَوروں کے حق میں یہ نتیجہ، کہِیں کہِیں دیر سے نکلتا ہے اور کبھی کبھی، بغیر بْرا کام کیے بھی نکل آتا ہے۔ لیکن آصف زرداری؟ گرفتار ہونے والے نے بڑی اْڑانیں بھریں، بہت چکمے دیے، ہر ایک کو بھّرا دینا چاہا، مگر، آخر فنا آخر فنا! چند ہفتے پہلے ایک معروف کالم نگار نے، لکھ دیا تھا کہ زرداری جلد ہی دھر لیے جائیں گے۔ پھر خود لکھنے والے پر الزام لگا کہ بات کچھ اَور کہی گئی تھی، انہوں نے رنگ آمیزی زیادہ کر دی۔ کالم نگار کی برأ ت کو یہ ایک نکتہ کفایت کرتا ہے کہ تردید، تحریر کی پہلی قسط کے بعد نہیں کی گئی۔ یہ بھی لکھا گیا تھا کہ زرداری صاحب پیشیوں میں "پا بدست ِدگری، دست بدست ِدگری" پیش ہوتے ہیں۔ چائے پیش کی جاتی ہے تو پیالی تھامی نہیں جاتی۔ ہاتھ لرزتا رہتا ہے۔ ہنسی کا نہیں، یہ عبرت کا محل ہے۔ کہاں گیا وہ کَّروفَر اور آئو بھگت، جو ان کا حق سمجھے جاتے تھے؟ وہ ساری خواہشیں اور تمنائیں کیا ہوئیں، جنہوں نے زمین کا گز بنا رکھا تھا؟ وہ تْرت پھرت اور مستعدی، آخر کو معزول ہو کر رہی۔ کہیں رْکے ہوتے، غور کیا ہوتا تو رستہ بدل کر جا سکتے تھے۔ لیکن ع مدرسے میں دہر کے، رْو بر قفا بیٹھے تھے ہم آدمی دنیا کو بھرتا جاتا ہے، آپ خالی ہوتا جاتا ہے۔ کیا فائدہ اس دولت کا، جو یوں کھْکھ کر کے، ساتھ چھوڑ دے؟ یقین نہیں کہ اپنے کیے کا کتنا خمیازہ، انہیں یہاں بھْگتنا ہو گا۔ آخرت کا حساب، البتہ یقینی ہے! "یک پیری و صد عیب" آپ نے سْن رکھا ہو گا۔ مگر اْس "خوش بخت" کو کیا کہیے گا، جو پیری کو پہنچا بھی ہزار عیب لے کر ہو؟ رہے جسمانی ضعف اور شکستگی، تو یہ عْمر کا تقاضا ہیں۔ بقول ِمصحفی بھلا جراحت ِاعضاے ِپیر کیا ہووے کہ جیسے رّسی سے ٹْوٹا کواڑ باندھ دیا عبرت کے لیے، یہ کافی ہے کہ وہ چہرے، نظر جن پر پھسل پھسل جایا کرتی، اس طرح جھْریاتے اور چرمراتے ہیں کہ نگاہ الجھ الجھ جائے۔ اکبر الٰہ آبادی نے، گویا حرف ِآخر کہہ دیا ہے۔ زندگی ہی میں بتدریج ہیں مرتے جاتے وقت کے ساتھ ہی، ہم بھی ہیں گْزرتے جاتے آصف زرداری اس ڈھرے پر جب نئے نئے چڑھے تھے، تو کم از کم مغرور نہیں تھے۔ ممکن ہے کہ ان کا انکسار اور فروتنی بھی، ڈھکوسلا رہے ہوں۔ البتہ یہ تو سب نے دیکھا کہ جب وہ ہر ایک پر "بھاری" ثابت ہوتے گئے، غرور سر کو چڑھ کر رہا۔ پھر اپنے آگے یہ کسی کو، گردانتے نہیں تھے۔ تاآنکہ ان کی زبان سے اینٹ سے اینٹ بجانے کی ڈینگ نکل آئی۔ اْس دن سے لے کر آج تک، ان کی رسی اگر ایک گز دراز کی گئی تو دو گز کھینچ لی گئی۔ ہوتے ہوتے گرفتاری کا دن آ پہنچا۔ کہا جا سکتا ہے کہ جیسی رْوح، ویسے فرشتے۔ جیسی قوم ہے، ویسے ہی اس کے حاکم۔ لیکن بات اتنی سادی ہے نہیں۔ قوم کو اس حالت میں رکھا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ان پر سوار رہا جائے۔ قوم کا قبلہ سیدھا ہو جائے، تو انہیں ایک لمحے میں جھٹک پھینکے۔ لیکن اس نظام میں، عوام میں یہ شعور پیدا کرنے والا آئے ہی کیوں؟ ٭٭٭٭٭ نیا دشمن امریکا کے "دیوانہ بکار ِخویش ہوشیار" صدر نے، اب چین کے ساتھ سینگ پھنسا لیے ہیں۔ اس کی پیش بندی، انتخابات کے دنوں سے جاری تھی۔ ٹرمپ ان دنوں بھی یہی کہتے تھے کہ اس باہمی تجارت سے چین، ناجائز اور اپنے حصے سے زائد فائدہ اٹھا رہا ہے۔ البتہ امریکی انتظامیہ کے پیش ِنظر، چین کا بڑھتا ہوا وہ اثر و رسوخ ہے جو جنوبی امریکا تک پہنچ چکا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ ع قافلۂ بہار را، طائرِپیش رس نِگر سو نظر روس سے زیادہ، اب چین پر گڑی ہوئی ہے۔ اور نظر کیا، نقشہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ نصف دائرے یا قوس کی شکل میں چین کا، امریکن بحریہ نے باقاعدہ احاطہ کر رکھا ہے۔ وہ وقت یاد کیجیے جب اسی طرح سوویت یونین کو گھیرا گیا تھا۔ رْوسی چیختے رہ گئے کہ چند ماہ پہلے تک ہم اتحادی تھے۔ لیکن کچھ شنوائی نہ ہوئی اور وہ سارے علاقے، رْوس جنہیں "بفر زون" سمجھتا تھا، افواج اور ہتھیاروں سے بھر دیے گئے۔ وہ ساری یقین دہانیاں جو کی گئی تھیں اور زبانی معاہدے، جو اس "اتحادی" کے ساتھ، کیے گئے تھے، رْوس انہیں آج بھی جھینک رہا ہے۔ دنیا کا امن و سکون غارت کرنے میں، رْوس کا حصہ عْشر ِعشیر کے بھی برابر نہیں۔ بد سے زیادہ، یہ مْلک بدنام ہے۔ دوسروں کی ہلاکت خیزیوں کے مقابلے میں، کرائیمیا کا واقعہ تو کچھ بھی نہیں۔ مگر ع کان اْن کے وہ نازک کہ گراں میری غزل بھی چین کا معاملہ اس وقت قدرے مختلف ہے۔ چین اور امریکا، ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ چین نے، شاید حفظ ِما تقدم کے طور پر، امریکی بانڈ اتنی بڑی مقدار میں خرید رکھے ہیں کہ کڑا وقت آنے پر انہیں بھْنوا لیا جائے اور امریکی معیشت متزلزل ہو جائے۔ ٹرمپ خود کو بہت بڑا بزنس مین ہی نہیں، بزنس مینوں کا سرتاج ثابت کرنے پر تْلے ہوئے ہیں۔ یہ اَور بات ہے کہ ان کی پالیسیاں، باقی ممالک تو رہے ایک طرف، دونوں ہمسایوں، یعنی کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ بھی بگاڑ پیدا کر رہی ہیں۔ سارا الزام ٹرمپ پر بھی نہیں دھرا جا سکتا۔ دراصل امریکی اسٹیبلشمینٹ ان سے وہ کام کرا رہی ہے، جو ذرا سا بھی ہوشمند صدر، کبھی نہ کرتا۔ مشرق ِوْسطٰی کے معاملات ہمارے سامنے ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمینٹ نے جگہ جگہ فتنے کھڑے کر کے، اپنے مْلک کی حالت ڈھلتی عْمر کی اْس عورت جیسی ثابت کر دی ہے، جو پیش دستی نہ ہونے پر، خود پیش دستی کر بیٹھتی ہے! ترس عوام پر آتا ہے، جن کی اکثریت کو خبر نہیں کہ دنیا ان کے ملک کو کِس نظر سے دیکھتی ہے۔