طویل غیر حاضریوں کی معذرتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب معذرتوں کی بھی معذرت واجب ہے! دراصل پچھلے آٹھ دس روز، سفر میں گزرے۔ پائوں کا چکر، اب واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر رْکا ہے۔ امریکا آتے ہوئے، روم، نِیس اور بارسلونا، پہلی بار دیکھ لیے۔ سوچا تھا کہ ذرا قرار آئے تو یہ رْوداد، ایک ہی نشست میں لکھ دی جائے۔ لیکن عرفت ربی بفسخ العزائم! خیر، پہلے لاہور کا قصہ سنیے، جہاں اب کی بار، کھڑی سواری جانا ہوا۔ پڑائو، بمشکل پانچ چھے گھنٹے کا تھا، اس میں شہر اور شہریوں کی کیفیت تو معلوم کیا ہوتی، گرمی نے میرا مزاج البتہ پوچھ لیا! چند ماہ پہلے خواجہ زکریا صاحب اسلام آباد تشریف لائے تھے تو اس خاکسار کو یاد فرمایا تھا۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کا ملنا، ع میرا سر ِدامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا کے برابر تھا۔ بازدید کے لیے لاہور کا قصد، ذہناً تو کر رکھا تھا، عملاً نوبت اب آئی۔ سفر کی زحمتوں سے بچنے کی ذہنیت نے، سفر چور بنا دیا ہے۔ دیس بدیس کی سیر کرنے کا شوق ایک چیز، مگر، بقول ِ انیس ع ہوتے ہیں بہت رنج مسافر کو سفر میں لاہور میں برادر ِعزیز عاطف خالد بٹ ساتھ ساتھ رہے۔ ان کی خواجہ صاحب سے نیازمندی کے پہلو کئی ہیں۔ اب پچھلے چند سال سے عاطف بھی تدریس سے ہی وابستہ ہیں۔ گویا ع ہوتے ہوتے، ایک ہم تم ہو گئے! ِایئرپورٹ سے ہم سیدھے، خواجہ صاحب کے گھر پہنچے۔ تین گھنٹے کی نشست میں گفتگو، سیاست اور صحافت سے شروع ہو کر، لامحالہ ادب کی طرف مْڑ گئی۔ بیچ میں خواجہ صاحب مْدّرسی کے دوران پیش آنے والے کچھ دلچسپ واقعات سناتے رہے۔ سارا مْلک چھان ڈالیے، خواجہ صاحب کے علم و فضل کے لوگ، دو چار بھی شاید ہی نکلیں۔ علم پڑھ لینا زیادہ مشکل نہیں، اسے پچا جانا البتہ بڑا کام ہے! خواجہ صاحب ان دونوں مرحلوں سے، بڑی سہولت اور خوش اسلوبی سے گزرے ہیں۔ معلمی کے ذریعے، علم کی تبلیغ، اس پر مستزاد ہے! مجھ سے پوچھیے تو ان کا اس سے بھی بڑا وصف، صاف گوئی ہے۔ صاف گو ہونا، بے شک آسان نہیں۔ مگر جس نے یہ ایک "بیماری" پال لی، اور بہت سے روگ اور وبائیں، اْس سے دْور رہیں! ع یہ غم ہو گا، تو کتنے غم نہ ہوں گے کیسے ممکن ہے کہ خواجہ زکریا صاحب سے ادب پر بات ہو اور اکبر الٰہ آبادی کا ذکر نہ آئے؟ سو اکبر یاد آئے اور خوب آئے۔ اردو کے نقادوں اور شاعروں کے، "افکار" اور نظریات دیکھ کر، یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے، غالب کو سمجھنا آسان، میر کو سمجھنا دْشوار اور اکبر کو سمجھنا، قریب قریب محال ہے! اپنے فن پر میر کا یہ تبصرہ، کفایت کرتا ہے۔ بے تامل، کَے شناسی طرز ِگفتار ِمرا دیدہ نازک کْن، کہ فہمی حرف ِتہہ دار ِمرا یعنی، غور و فکر کے بغیر، میری طرز تمہاری سمجھ میں کیوں کر آئے؟ میرے حرف حرف میں جو تہہ داری ہے، وہ بڑی باریکی اور عمیق نظر چاہتی ہے! لیکن اکبر کا معاملہ اَور بھی ٹیڑھی کھِیر ہے۔ ان کے کلام کے تقریباً نصف پر، ظرافت کا اتنا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے کہ اس کے پار دیکھا نہیں جاتا۔ درجہ وار، کلام ِاکبر کی ترتیب یوں کی جا سکتی ہے۔ ظرافت، تغزل، تصوف، طنز اور فلسفہ۔ ہمارے نقادوں نے بہت تیر مار لیا تو ظرافت سے آگے، تغزل پر نظر ڈال آئے۔ اس ضمن میں، آل ِاحمد سرور اور خلیل الرحمٰن اعظمی نے خصوصاً جھک ماری ہے۔ کہنا چاہیے کہ جہاں سے اصلی اکبر شروع ہوتے ہیں، وہاں تک ان کی گاڑی پہنچتی ہی نہیں! غرض ع تھَک تھَک کے، ہر مقام پر، دو چار رہ گئے خواجہ صاحب خود بھی شاعر ہیں۔ یہاں عرض کر دینا چاہیے کہ دو تین کے سوا، موجودہ شاعروں اور ان کے کلام سے میں زیادہ واقف نہیں۔ خواجہ صاحب کی شاعری دیکھنے کا موقع، چند ماہ پہلے ملا۔ دو شعر آپ بھی سنیے۔ عْمر ساری تو یہاں جبر سہے، صبر کیے بعد مرنے کے مجھے کیا، جو میری قبر جیے پہلے مصرعے میں صبر کو جمع کی شکل میں لانا، مشاقی کے ساتھ بڑی خوش مذاقی کا طالب تھا! "صبر کیے" نے بظاہر ایک عام سی بات کو خاص بنا دیا ہے! قبر کے جینے کی اصطلاح، شاید سلطان باہو کی ایجاد کردہ ہے۔ (قبر جنہاں دی جیوے ہْو(۔ حق ہے کہ خواجہ صاحب کے شعر میں، اس کا استعمال زیادہ خوبصورتی سے ہوا ہے! ایک شعر اور دیکھیے۔ نیکیوں کی بھی خْدا توفیق دے آپ کا کتنا مْقدّس نام ہے ہمارے مْلک میں تقریباً ہر انسان کا نام کسی نہ کسی خوبی یا وصف کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسے ذہن میں رکھ کر دیکھیے کہ یہ شعر ضرب المثل بننے کے لائق ہے کہ نہیں! استاد ِمحترم شاہد ملک صاحب سے ملاپ، بڑا مختصر اور تشنہ رہا۔ الیکٹرانک میڈیا اور اس کے پیچ و خم سے واقف، اتنا گْنی آدمی شاید ہی کوئی اَور ہو۔ ملک صاحب پینتیس چالیس سال پہلے بھی کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ اب کئی سال سے دوبارہ تدریس کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ یہ ذرا سی یکجائی، دو سال بعد ہوئی تھی۔ خیر، ع پھر ملیں گے، اگر خْدا لایا یہاں ٹھیکی لے کر اْٹھا کہ آخری ملاقات شعیب بن عزیز صاحب سے طے تھی۔ میرے والد اظہر سہیل مرحوم سے ان کا، دانت کاٹی روٹی کا معاملہ تھا۔ یہ دوستی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے شروع ہوئی اور پھر اس میں، چڑھائو ہی چڑھائو رہا، اْتار نہیں آیا۔ اسی شہر کی میکلورڈ روڈ پر چٹان اور کوہستان کے دفتر، آمنے سامنے قائم تھے۔ اظہر سہیل مرحوم، چٹان میں آغا شورش کاشمیری کے دست ِراست تھے۔ مگر کوہستان میں بھی ان کا دو شعری قطعہ، روزانہ چھپا کرتا تھا۔ وہ پْرانا لاہور، اس کی دلداریاں اور وضع داریاں، اب قصے کہانیوں کی چیز ہو کر رہ گئی ہیں! شعیب صاحب، اسی پْرانے لاہور کی یادگاروں میں ہیں۔ سو ع میر کو کیوں نہ مغتنم جانیں اور خْدا انہیں سلامت رکھے کہ ع اگلے لوگوں میں اک رہے ہیں یہ دلی اور لکھنئو اور دکن کے نوحے، ہم پڑھ چکے ہیں۔ لاہور کا المیہ ذرا اَور نوعیت کا ہے۔ اسے کسی خونی انقلاب نے نہیں لْوٹا۔ زمانے کی گردش البتہ اسے اْلٹا رہی ہے۔ شعیب صاحب کا یہ شعر، دْعا بھی ہے۔ میرے لاہور پر بھی اک نظر کر تیرا مکّہ رہے آباد مولا