میں نے صرف تین باتیں عرض کیں! سیمینار کا عنوان تھا‘ قائد اعظم اور پیر مانکی شریف۔ سوال کیا‘ ان دو ناموں کے اکٹھا آنے کا مطلب کیا ہے۔ کیا صرف یہ بتانا ہے کہ پیر امین الحسنات آف مانکی شریف نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کا بہت ساتھ دیا کہ انہی کی بدولت مسلم لیگ صوبہ سرحد کا ریفرنڈم جیتنے میں کامیاب ہوئی یا کچھ اور بھی ہے۔ ویسے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ اگر آج خیبر پختونخواہ(سرحد) پاکستان کا حصہ ہے تو اس میں پیر صاحب کا بڑا بنیادی کردار تھا۔ اس کے علاوہ ان دو ناموں کے اکٹھا ساتھ ساتھ درج ہونے سے مجھے یہ بات یاد آ گئی کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے کب کہا تھا کہ پاکستان کا نظام سیاست شریعت کے مطابق ہو گا‘ وہ مانکی شریف چلے جائیں جہاں قائد اعظم علماء و مشائخ کے اجتماع میں وضاحت فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں کون سا نظام حکومت ہو گا۔ قائد اعظم ایک جمہوری ذہن کے آدمی تھے۔ ان کا جواب ہمیشہ یہ ہوتا تھا چاہے کوئی مغرب کا صحافی پوچھے یا برصغیر کا کوئی باشندہ۔ وہ یہ کہ میں کون ہوتا ہوں یہ بتانے والا اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے اور یہ کہ جیسا میں ان کے مزاج کو جانتا ہوں یہ آئین پارلیمانی اور جمہوری ہو گا۔ تاہم ان سے جب یہ سوال پوچھا جاتا اور اس کے حوالہ اسلام ہوتا تو وہ صاف کہتے پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہو گی ۔اس لئے سوال ہی پیدا نہیںہوتا کہ یہ نظام اسلامی شریعت سے ہٹ کر ہو‘ہمیں اس بارے میں کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ یہاں بھی انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کا نظام شریعت اسلامیہ کے عین مطابق ہو گا۔ جب علماء نے تحریری یقین دہانی چاہی تو قائد اعظم نے پیر صاحب مانکی شریف کو ایک خط کے ذریعے اپنے اس یقین محکم سے آگاہ کیا۔ آپ اسے یقین محکم کہہ لیں یا ایمان کہہ لیں۔ قائد اعظم یہی سمجھتے تھے۔ مانکی شریف میں قائد کی اس گفتگو اور اس خط کے حوالے سے اگر میں یہ کہوں کہ دو شخصیتوں کے ساتھ ساتھ آنے کا مطلب کیا ہے تو سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟جی ہاں اب تو کوئی کنفیوژن نہیں رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں بعض اعتزاز احسن (ویسے وہ ایک بھلے آدمی ہے۔ ان کا ذکر اس لئے آ گیا کہ اس فیصلے پر میری پبلک بحث انہی سے ہوتی رہی ہے)یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے۔ اچھا یہ بات ہے۔ تو بھائی قائد اعظم تو انگریزی جانتے تھے نا۔ یہ جو آج کل کہا جاتا ہے کہ فلاں دستاویز کا اردو میں ترجمہ ہو جائے تو ان لوگوں کو سمجھ آئے گا تو قائد اعظم کے بارے میں تو کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا نا۔ وہ سیاسیات کے علم سے بھی باخبر تھے اور انہوں نے تمام نظام ہائے حیات کا مطالعہ بھی کر رکھا تھا۔ وہ سیکولزم کے لفظ سے تو واقف ہو ں گے؟ کیا خیال ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کبھی سیکولرزم کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ عجیب سیکولر تھے کہ ہمیشہ اس لفظ سے اجتناب کرتے رہے۔ ایک بات تو میں نے یہ عرض کی۔ دوسرا سوال اور پوچھ لیا۔ ہم کیسے لوگ ہیں جن لوگوں نے پاکستان کی مخالفت کی ان کے نام سے تو ہم نے ادارے بنا لئے ،مگر پاکستان بنانے والوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ خیبر پختونخواہ میں باچا خاں یونیورسٹی تو موجود ہے مگر پیر صاحب مانکی شریف کے نام سے کسی یونیورسٹی میں ایک چیئر تک نہیں۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ان کے نام کی بھی ایک یونیورسٹی بنا دیتے جن کے طفیل خدا نے ہمیں پاکستان دیا۔ آج کی حکومت روحانیت پر بڑا زور دیتی ہے۔ ایسی یونیورسٹی روحانیت‘ تحریک پاکستان اور اسلامی قدروں پر خاص زور دیتی ہے۔ ہم بڑے لبرل لوگ ہیں۔ جن لوگوں نے علاقائی سطح پر پاکستان کی مخالفت کی‘ ان کی تو تکریم کی مگر جو پاکستان کے سپاہی تھے۔ ان کو بھولتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بہت سنجیدہ بات ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہم باچا خان‘ جی ایم سید‘ عبدالصمد اچک زئی کو احترام دیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے نظریات کو جسدسیاست میں سرایت کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیں۔ کوئی قدغن نہ لگائیں انہیں اپنا بیانیہ نشر کرنے دیں مگر اس کے جواب میں اپنے نظریاتی بیانیے کو بھی مضبوط کریں۔آپ غور کریں میں نے صرف تین نام لکھے ہیں یہ لوگ سیاست میں ہار گئے مگر ان کے بیانیے مین سٹریم سیاسی جماعتوں میں سرایت کرتے رہے اور ہم نے اسے اپنی کشادہ دلی قرار دیا۔ یہ نہ سوچا مقابلے میں پاکستان کے بیانیے کو بھی مضبوط کریں کیا ہی اچھا ہو امین الحسنات یونیورسٹی آف نوشہرہ قائم ہو جس کا مزاج اس سے زیادہ پاکستا نی ہو جتنا علی گڑھ کا تھا۔ اس لئے کہ علی گڑھ تو سرسید کی فکر سے پیدا ہوئی تھی۔ یہ ہماری نئی مجوزہ یونیورسٹی پیر صاحب مانکی شریف کے طرز حیات اور طرز فکر سے پیدا ہو گی۔ یہ تو ہوئیں دو باتیں ۔ بہتر بات یہ تھی کہ اپنی خانقاہوں کو علم و دانش کی درسگاہیں بنائیں۔ جہاں طالب علموں کی روحانی تربیت بھی ہو اور علمی طور پر وہاں سے ہمارے مستقبل کے شیخ الحدیث اور شیخ التفسیر نکلیں۔ یہ نہیں کہتا کہ نکل کر خانقاہوں سے ادا کریںرسم شبیری‘ صرف یہ کہتا ہوں کہ ان خانقاہوں کو صرف مریدوں کی عقیدت کا مرکز نہیں ہونا چاہیے بلکہ رشدو ہدایت اور علم دین کا مرکز ہونا چاہیے۔ خیر یہ تو ہوئیں چند باتیں۔ اس دن مجھے خوشی ہوئی کہ اس خانقاہ میں آج بھی ایک تڑپ باقی ہے۔ پیر امین الحسنات کے پوتے صاحبزادہ محمد امین نے بلا شبہ ایک خوبصورت اور پرتاثیر تقریر کی۔ یہاں کے سجادہ نشین پیر روح الامین تو یہاں موجود نہ تھے۔ مگر ان کے بھائی پیرزادہ نبی الامین صدارت کر رہے تھے۔ علماء اور مشائخ کی اس محفل میں چند الفاظ کہنا میرے لئے سعادت تھی۔ ان لوگوں نے محافظ نظریہ پاکستان کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔ جس کا مقصد اس کے نام سے واضح ہے۔ خدا کرے یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ غلط نہیں کہتا پاکستان کو ایک نئی تحریک پاکستان کی ضرورت ہے۔ ہم سیاسیات کے مارے ہوئے روز جو ایسے گناہوں کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ اس کا کفارہ صرف اسی صورت ہو سکتا ہے کہ ہم میدان عمل میں نکل کر اس روح کو تازہ کریں جو تحریک پاکستان کا محرک جذبہ تھا۔ مزید کیا عرض کروں‘ میری بات واضح ہو چکی ہو گی۔