آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عسکریت پسندی کے خلاف جاری آپریشن ردالفساد کے تین سال مکمل ہونے پر فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری تفصیلات کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف دو عشروں تک لڑی جانے والی جنگ کے نتائج خطے میں امن کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کی فضا تقویت پا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لے کر سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ تک مسلح افواج نے جو کردار ادا کیا اسے قوم کی حمایت حاصل رہی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطے کی مخصوص صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج ملک کو درپیش تمام خطرات سے آگاہ اور ان سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ نائن الیون کے واقعات امریکہ میں ہوئے لیکن اس کے اثرات سب سے زیادہ پاکستان اور افغانستان کی سرزمین پر ظاہر ہوئے۔ افغانستان میں جو ہوا وہ الگ معاملہ ہے لیکن پاکستان میں 20کروڑ سے زاید نفوس کو امن دشمن قوتوں کی طرف سے شدید خطرات لاحق ہو گئے۔ دہشت گرد مخصوص نظریات کے ذریعے نئے لوگوں کو اپنا ساتھی بنا رہے تھے، رقوم کے بندوبست کے لیے مختلف نیٹ ورک استعمال کر رہے تھے، پاکستان میں آنے والے کھلاڑیوں، سرمایہ کاروں اور اہم شخصیات کو نشانہ بنا رہے تھے۔ وہ اپنی کارروائی کو جائز اور برحق ثابت کرنے کے لیے افغانستان میں امریکی فوج کی کارروائیوں کو جواز بناتے۔ پاکستان کو امریکہ کی مدد کرنے پر دہشت گرد گروہ سزا دینا چاہتے تھے۔ وہ یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ پاکستان نے آغاز میں ہی معاملات کو جنگ سے بچانے کے لیے جو کوششیں کیں وہ عسکریت پسند گروپوں کی بے جا ضد کے باعث ناکام ہوئیں۔ ان جنگجوئوں نے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ٹھکانے بنا کر پاکستان میں پرتشدد سرگرمیاں شروع کر دیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور اور راولپنڈی سمیت کون سا شہر ہے جس نے دہشت گردی کے زخم نہیں کھائے۔ فوجی افسران و اہلکار، صحافی،پولیس، رینجرز، وکلائ، طالب علم، اساتذہ، راہگیر اور سرکاری ملازم دہشت گردوں کا نشانہ بن کر شہید ہوتے رہے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردانہ حملے نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ طالب علموں اور اساتذہ کی جان لے لی۔ اس واقعہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے مل بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔ یہ نیشنل ایکشن پلان اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں صرف دہشت گردوں سے مقابلے کی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی بلکہ اس عفریت سے نمٹنے کے لیے جس آئینی، قانونی، انتظامی اور سماجی مدد کی ضرورت محسوس کی گئی اس کے لیے بھی اہم فیصلے ہوئے۔ پاک فوج نے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں الگ الگ آپریشن کیے۔ ان آپریشنوں کے دوران دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے گئے۔ دہشت گردوں کے خلاف عدالتی کارروائی کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ پارلیمنٹ نے ہنگامی حالات کی ضروریات کو سمجھا اور مطلوبہ قانون سازی میں تاخیر نہ ہونے دی۔ 2017ء میں پاک فوج نے دہشت گرد عناصر کو پورے ملک سے ختم کرنے کے لیے آپریشن ردالفساد شروع کیا۔ ریکارڈ یافتہ افراد کی نگرانی کی گئی، ناجائز اسلحہ پکڑا گیا، فرقہ وارانہ اور پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سزائوں پر عملدرآمد کی رفتار تیز کر دی گئی۔ سماج کے دیگر طبقات کو بھی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں معاون بنایا گیا۔ آپریشن ردالفساد آج بھی اسی رفتار اور جذبے سے جاری ہے جیسا تین سال پہلے شروع کیا گیا۔ تین برسوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی قربانیوں کے طفیل پاکستان کی عالمی ساکھ بہت بدل چکی ہے۔ پاکستان میں کرکٹ، کبڈی، ٹینس، ہاکی اور باکسنگ کے بین الاقوامی مقابلے ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے باعث سرمایہ کاری اور کاروبار تباہ ہو چکے تھے۔ آج دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان میں امن کی بحالی کے بعد مواقع کی تلاش میں آ رہے ہیں۔ امن لوٹ کر آنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سوات، گلگت اور دیگر سیاحتی مقامات کی جانب مقامی اور غیر ملکی سیاحوں نے بڑی تعداد میں آنا شروع کر دیا ۔ گزشتہ برس کے اختتام کے قریب برطانیہ کے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن نے پاکستان کا دورہ کیا اور کئی سیاحتی مقامات کا نظارہ کیا۔ ان کے دورے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کے قدرتی حسن، مقامی لوگوں کی مہمان نوازی اور ثقافتی خوبیوں کی دل کھول کر تعریف کی۔ وہ ممالک جہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے متعلق پرتشدد تصور موجود تھا اب صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ کسی ملک میں دہشت گرد مضبوط ہو جائیں تو پورا خطہ غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے ہمسائے میں موجود افغانستان اپنی ناکافی انتظامی و دفاعی صلاحیت کے باعث ان ٹھکانوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا جہاں دہشت گرد خود کو منظم کرتے ہیں۔ داخلی انتشار کی وجہ سے بھارت جیسے ممالک کو موقع ملا کہ وہ افغانستان میں خفیہ اڈے بنا کر پاکستان کے مفادات کو نشانہ بنائے۔ پاکستان نے صرف اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ افغانستان سے آنے والے ایسے عناصر کے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں چھپنے کا موقع نہیں دیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف پورے خطے میں سرگرم عسکریت پسند گروہ ختم کیے۔ امن کی بحالی کے فوائد پاکستان کو ملیں گے مگر اس سے افغانستان، ایران، مشرق وسطیٰ، چین، روس اور حتیٰ کہ بھارت بھی فائدہ اٹھائے گا۔ مسلح افواج نے ثابت کیا ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور خطے کے استحکام کے حوالے سے اہم معاملات کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔