ایرا ن کے صدر ابراہیم رئیسی ایسے وقت میں پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچے ہی جب کہ مشرق وسطی میں کشیدگی اپنی انتہا پر ہے۔ گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جس سفاکی سے اسرائیل نے غزہ میں موجود فلسطینیوں کو بربریت کا نشانہ بنایا ہے اُس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ چنگیز خان، ہلاکو اور دوسرے ظالم درندہ صفت حملہ آور بھی اسرائیلی حکمرانوں کے مقابلے میں معصوم لگتے ہیں۔ اسرائیل پر حماس کے حملے کو اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اور اُن کی کابینہ اور فوجی کمانڈر حماس کے حملے کو ایران کی شہ پر کیاجانے والا حملہ کہتے ہیں۔ اسرائیل ایک عرصہ سے یہ الزام لگا رہا ہے ایران اپنی پراکیسز(Proxies ) کے ذریعہ اسرائیل کے اثاثوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لبنان میںموجود حزب اللہ کو وہ ایران کی پراکسی قرار دیتا ہے۔ شام میں موجود ایران کے پاسدران انقلاب کو اسرائیلی حملوں کا نشانہ بناتا رہاہے۔ اسرائیل نے کئی مرتبہ دھمکی دی ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے گا۔ اسرائیل ایران کے کئی ایٹم سائنسدانوں کو بھی قتل کر چکا ہے۔ مشرقی وسطی میں ایران کے حامی جنگجو کمانڈر جنرل قاسم سلیمان کو امریکہ نے ڈرون حملے میں دو سال پہلے بغداد میں شہید کر دیئے گئے تھے۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد ایران اور اسرائیل میں گشیدگی بڑھتی رہی ہے۔ لیکن دونوں نے ایک دوسرے پر براہ راست حملے سے اجتناب کیا ہے۔ دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ اور اس کے نتیجے میں دو سینئر ایرانی جرنیلوں کے مارے جانے کے بعد ایران نے جواباً اسرائیل پر ڈورنز سے حملہ کیا ۔ جس سے اسرائیل کا خاصا نقصان ہوا۔ اسرائیل نے حال ہی میںاصفہان میں ایران کے ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جو ایران کی ایٹمی تنصیبات کے قریب ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو حملوں کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایسے وقت میں ایران کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ ایران اور پاکستان کا فلسطین کے شدید موقف یکساں ہے۔ صدر ابراہیم رئیسی نے ویزاعظم شہباز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کر نفرنس میں فلسطین کے متعلق پر پاکستان کی پوزیشن کوسراہا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان نے فلسطینیوں کے حقوق کیلئے ٹھوس موقف اختیار کیا ہے۔ دونوں ملکوںنے تجارت کو بڑھانے اور اسے دس ارب ڈالر تک لے جانے کے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ سرحدی تجارت میں توسیع کیلئے بھی دونوں ملکوں میں اہم دستاویزات پر دستخط ہوئے ہیں۔ ایرانی صدر کے دورے کو مغربی ممالک خصوصاً امریکہ گہری نظر سے دیکھ رہاہے۔ صدر رئیسی کے دورہ میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر بھی بات چیت ہوئی ہے اس منصوبے کا امریکہ سخت مخالف ہے۔ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامان ہے ۔پاکستان کی کوشش ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہو اور اُسے سستے نرخوں پر گیس مل سکے۔لیکن امریکی مخالفت کے باعث یہ منصوبہ ایک عرصہ سے لٹکا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت جب کہ اس پر امریکہ نے لانگ رینج میزائل کی ٹیکنیک کے حصول پر پابندی لگا دی ہے ۔ امریکہ کو مزید ناراض کرنے سے گریز کرے گا۔ گیس پائپ لائن منصوبہ شاید کچھ عرصہ کیلئے تعطل کا شکار رہے گا۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر دھمکی دی ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے چھ سے آٹھ ارب ڈالر کا پیکج بھی چاہیے۔ اسے عالمی بینک سے دیمر بھاشا ڈیم کیلے ایک ارب ڈالر بھی لینے ہیں۔ کئی دوسرے ترقیاتی پروگراموں کیلئے بھی اسے عالمی بینک سے فنڈز چاہییں۔ امریکی حمایت کے بغیر پاکستان کیلئے موجودہ مالیاتی بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔ پاکستان ان مجبوریوں میں جکڑا ہوا ہے ۔ ایران کے ساتھ تجارت بڑھانے اور چند دوسرے شعبوں میں تعاون سے آگے شاید بات نہ بڑھ سکے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ختم ہوگئی ہے ۔ چین نے دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات بحال کروا دئیے ہیں۔ ورنہ پاکستان کو امریکہ کے علاوہ ماضی میں سعودی عرب کو بھی ایران کے حوالے سے تحفظات ہوتے تھے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کو کم سے کم پانچ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانے کی بڑی گنجائش ہے۔ ایران اورپاکستان ایک دوسرے پر یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ دہشت گرد ایک دوسرے کی زمین کو استعمال کرکے دہشت گردی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہونے والے ایرانی حملے اور اس کے جواب میں پاکستان کے ایران کے اندر حملے کی وجہ سے دونوں طرف سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے دعوے کئے تھے۔ اس موضوع پر ایرانی صدر کے دورے میں بات چیت ہورہی ہے۔ دونوں ملکوں نے اُن دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگانے پر اتفاق کیا ہے جو ایک دوسرے کے ہاں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ایک ایسے معاشی اور مالیاتی بحران میں جکڑا ہوں کہ جس نے اُس کے ہاتھ باندھ دئیے ہیں۔وہ خارجہ پالیسی کے میدان میں کھل کر قومی مفاد کے فیصلے کرنے سے قاصر ہے۔اس پر ہمیشہ دبائو رہتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک اُس سے ناراض ہوگئے تو اُس کوکئی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ورنہ پاکستان توانائی کے حصول کیلئے ایران سے فائدہ اُٹھا کر سستے داموں انرجی حاصل کرسکتاہے۔ جس سے اُس کی انڈسٹری کو مناسب قیمتوں پر گیس مل سکتی ہے۔ملکی براآمدات بڑھانے کیلئے یہ ایک اہم ضرورت ہے۔لیکن پاکستان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ا مریکہ اور مغرب کادبائو اُس کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان کے برعکس بھارت ایران سے تیل امپورٹ کر رہاہے۔ امریکہ اس پر کوئی پابندی نہیں لگا رہا۔ پاکستان کی کمزور معیشت اور کمزور قیادت پاکستان کو ایک آزاد ، خودمختار ریاست بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ امریکہ نے پاکستان کے لانگ رینج میزائل پروگرام پر بھی پابندیاں لگا دی ہیں۔ یہ پابندیاں اس خطرے کے پیش نظر لگائی گئی ہیں کہ پاکستان کی یہ صلاحیت اسرائیل کے خلاف استعمال نہ ہو۔ یہ خدشہ بھی امریکہ کو پریشان کر رہاہے کہ پاکستان یہ ٹیکنالوجی ایران کے ساتھ شیئر کر سکتاہے۔ امریکہ یہ الزام تراشی بھی کرتا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی پروگرام میں بھی ایران سے تعاون کیا ہے۔