اس وقت ملک کی موجودہ صورتحال میں ایک بار پھر تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں، کہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم نے سیاسی شخصیات سے مذاکرات کا آپشن ہمیشہ کھلا رکھا ہے،کہیں کہا جا رہا ہے کہ اگر بانی تحریک انصاف ضد چھوڑ دیں تو اْن کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے، بلکہ خان صاحب تو خود بھی بارہا کہہ چکے ہیں میں نے کبھی بات چیت کے راستے کو مسترد نہیں کیا۔ لیکن کچھ حکومتی اور غیر حکومتی شخصیات ہیں جو چاہتی ہے کہ یہ لڑائیاں یوں ہی چلتی رہیں اور کسی قسم کے مذاکرات کا سلسلہ شروع نہ ہوسکے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں۔ سیاسی ادارے مزید کمزور ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان جھگڑوں کامزید متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان کے اس وقت حالات ایسے ہیں کہ اندرونی لڑائیاں لڑی جائیں۔ کیا پاکستان کو بیرونی خطرات کم ہیں جو اندرونی بھی شروع کیے جائیں ۔ کیا اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے؟ ضرور ہے،لیکن اگر کوئی ملک کے بارے میں سوچ رہا ہوتو! تحریک انصاف کی سونامی کے بعد ہم سب نے سوچا تھا کہ شکر ہے کہ ملک میں تبدیلی آئے گی،ملک خوشحال ہوگا، کرپشن ختم ہوگی، اور ملک کو نئی قیادت نصیب ہوگی۔ مگر مجال ہے کہ 2011ء سے لے کر آج تک اس ملک میں کوئی ایک بھی اچھی صبح دیکھنی نصیب ہوئی ہو۔ ہر روز نئی لڑائی، 2013کے انتخابات ہوئے، تو 35پنکچرز نے 5سال گزار دیے، 2018ء کے الیکشن ہوئے تو ان نام نہاد سیاستدانوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو نہیں چلنے دیا۔ اور پھر اگلا الیکشن اسی سال ہوا تو حکمران اتحاد نے ایسی دھاندلی کی کہ سابقہ الیکشن ہمیں بہتر لگنا شروع ہوگئے۔ اور ا ب بھی بدلے کی سیاست کی جا رہی ہے کہ خدا کی پناہ ! لیکن عوام کہاں ہیں؟ عوام کے پا س کیا ہے؟ کچھ نہیں، اْنہیں صرف مہنگائی، بیروزگاری اور خودکشیاں تحفے میں مل رہی ہیں… اس لیے تمام جماعتیں ہوش کے ناخن لیں، ذاتی اناہوں کو ایک طرف رکھیں ، غصہ اور کدورتوں کو نظر انداز کرکے ملک کے بارے میں سوچیں۔ تمام ادارے ملک کے بارے میں سو چیں اور کچھ چیزیں عوام کوبھی چھوڑیں،، کیا کسی کو علم ہے کہ انڈیا، ہمارے ملک کے اندر گھْس کر بندے ما رہا ہے،تادیبی کارروائیاں کر رہا ہے، اور پھر پوری دنیا میں شور مچا رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کے اندر سے ملک دشمن عناصر کو ختم کیا ہے۔ اس کا وہ کریڈٹ ہر جگہ لے رہا ہے۔ عامر سرفراز تانبا کو لاہور میں کس نے نشانہ بنایا؟ پھر آپ افغانستان کو دیکھ لیں، ابھی بھی حالیہ کراچی حملے میں ایک بار پھر افغان باشندہ ملوث نکلا اور خود کش حملے میں مارا گیا۔ الغرض خدا کے لیے تینوں بڑی پارٹیاں ملک کے لیے سوچیں! ورنہ خدانخواستہ اگر ملک کو نقصان ن پہنچا تواشرافیہ ذمہ دار ہوگی۔ میرے خیال میں ہٹ دھرمی اور کرپشن کا یہ آخری دور چل رہا ہے، عوام بھی مایوسی کی آخری حدیں چھو رہی ہے، ان کا مورال ڈائون ہو چکا ہے، عوام کو کسی الیکشن کمیشن پر اعتبار رہا ، نہ سیکیورٹی اداروں پر اور نہ ہی کسی سیاستدان پر بلکہ جس سیاستدان کے نام پر ووٹ پڑے اسے امیدوار ہی نہیں بننے دیا گیا۔ دنیا کی ایسی کسی قوم ترقی نہیں کر سکتی، جس کا مورال ڈائون ہو۔ قوموں کا، فوج کا، کھلاڑیوں کا اور ہمارے جوانوں کا ہمیشہ مورال ہی جیتتا ہے، اگر اْن کی Will Power زیادہ ہوگی تو وہ ترقی بھی کریں گے،، جیتیں گے بھی۔ محمد علی باکسر کہا کرتے تھے کہ آپ کا ہنر مند ہونا اتنا سود مند نہیں ہے،،، جتنا ول پاور کا ہونا، کیوں کہ جب آپ زمین پر گرے ہوتے ہیں تو پھر آپ کا ہنر اْس وقت کسی کام نہیں آتا بلکہ آپ کی ’’ول پاور‘‘ آپ کو اْٹھنے کے لیے اْکساتی ہے،،، اور دوبارہ کھڑا کرتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے عوام کو demoralized کر دیا ہے، اب سب سوچتے ہیں کہ رہنے دو یار فلاں کام کا کیا فائدہ؟ اْس سے کیا ملے گا؟ عوام میں تو اس قدر حوصلہ شکنی پیدا ہو چکی ہے کہ وہ اب کام کرنے کے بجائے ’’شارٹ کٹ‘‘ طریقوں سے مال بنانے کے چکر میں ہیں۔ چوری ، ڈکیتی تو ایک طرف ہمارے تو ایک ایک کرکٹ میچ پربھی اربوں روپے کا جوا لگتا ہے۔ بلکہ عوام تو یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ جب حکومت ہم سے 4کام غلط کروا رہی ہے تو پانچواں کام ہم بھی غلط کر لیتے ہیں،،، پھر فیصلے بھی غلط ہوتے ہیں۔ بیوروکریسی اور ملکی ادارون کی یہی روایت بنتی جا رہی ہے۔ لہٰذااگر ملک کو قائم رکھنا ہے تو پھر قوم کا مورال ٹھیک رکھیں۔ اس وقت قوم کا مورال یہ ہے کہ کوئی عمرانی ہے،،، تو کوئی جیالہ ،،، تو کوئی پٹواری ہے، مگر پاکستانی مجھے دور دور تک نظر نہیں آرہا کہ ہم کسی پارٹی میں نہیں ہیں، ہم صرف پاکستانی ہیں، لیکن اس وقت خاکم بدہن ہمیں پھلتا پھولتا پاکستان کہیں نظر نہیں آرہا۔ ان سب کے بیچ پولیس اپنی بدمعاشیاں کر رہی ہے، من مانیاں اس قدر ہیں کہ کوئی شہری بھی محفوظ نہیں رہا۔ ایسے حالات میں تو میں یہی کہوں گا کہ اگر ابھی بھی ہم نے سنبھلنے کی کوشش نہ کی تو یہ ہمارے لیے موت ہے،۔ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کم از کم لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھے،،، ملک میں گراں فروشی کو روکے،بیرونی مداخلت کو روکے۔ پاکستان کے تمام بیوروکریٹس، ریٹائرڈ فوجی افسران،، ججز اور دیگر ریٹائرڈ ہونے کے بعد بیرون ملک شفٹ ہو جاتے ہیں، اْنہیں پاکستان کا کیا درد ؟ اْن کی اولاد تو پہلے ہی بیرون ملک منتقل ہو چکی ہوتی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اشرافیہ کو پاکستان سے کوئی سرو کار نہیں ، کوئی فکر نہیں۔،،، یہ سوچتے ہیں کہ ہم تو محفوظ ہیں ، باقی جائیں بھاڑ میں۔ بہرکیف میں یہاں بطور پاکستانی یہ بات واضح کردوں ملک کا نقصان سے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور سیاستدانوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، انہوں نے تو بیرون ملک اپنی ایمپائرز کھڑی کی ہوئی ہیں لیکن یہ عوام کا نقصان ہوگا۔ اس لیے خدا کے لیے ریاست کو قائم دائم رہنے دیں، اس کے بارے میں سوچیں ، بیرون ملک آپ جتنا مرضی سکونت اختیار کر لیں، مگر وہاں آپ کی اہمیت ’’دوسرے شہری‘‘ کی حیثیت سے ہی ہو گا جبکہ پاکستان آپ کا گھر ہے،،، اسے سنبھالیں ورنہ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی!