ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ ہو گئے۔ اس دورے کی اہمیت کا اندازہ ایرانی صدر کے پاکستان میں قیام کے دوران امریکہ عہدیداروں کے پیٹ میں اٹھتے مروڑوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ دو برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کے بارے میں امریکہ کے پیچ وتاب کو علامہ اقبال کے دو اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے۔ پانی بھی مسخرّ ہے، ہوا بھی ہے مسخرّ کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پِیر بدل جائے جب اقبال نے یہ اشعار کہے تھے اس وقت پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد اتحادیوںنے ترکی کے سمندورں کو بین الاقوامی پانی تسلیم کروالیا تھا اور خلیجی ممالک میں امریکہ اور برطانیہ نے اپنا تسلط قائم کر کے دنیا پر اپنی حکمرانی کی راہ ہموار کر لی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کو کالونیل سسٹم کے خاتمے سے مشروط کر کے امریکہ نے خود دنیا کی سپر پاور تسلیم کروا لیا۔ اس شورش زدہ دور میں علامہ اقبال اگرچہ امت مسلمہ کے نام نہاد نئے حکمرانوں کے خودغرضانہ رویے سے مایوس تھے مگر ایران کومسلمانوں کا مستقبل دیکھ رہے تھے۔۔اسی لئے علامہ اقبال نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ: طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جینوا شاید کْرہ ارض کی تقدیر بدل جائے! تہران کے عالم مشرق کے جینوا ہونے سے ا قبال کو جہاں امید تھی وہاںامریکہ کو ایران کے ہزاروں سال کے ڈپلومیسی کے تجربہ سے خائف تھا۔ ایران سے ڈپلومیسی کے محاذ پرامریکہ کا پہلا ٹکرائو 1953 ء میں ایرانی وزیراعظم مصدق حسین کے ایرانی تیل پر امریکہ کا تسلط تسلیم نہ کرنے سے ہوا امریکہ نے مصدق حسین کی حکومت ختم کروادی مگر ایرانیوں کی خوداری کو ختم نہ کروا سکا اور ایرانیوں نے 4 نومبر، 1979ء کے اسلامی انقلاب کی صورت میں اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔ وہ دن اور آج کا دن امریکہ نہ صرف ایران بلکہ ایران کے ساتھ مراسم رکھنے والے مسلم ممالک کواپنے قہر کا نشانہ بناتا آ رہا ہے۔ جبکہ غیر مسلم ممالک کے ایران سے تعلقات پر مسلسل صرف نظر برتا ہے۔ امریکہ کی پابندیوں کے غیر منصفانہ ہونے کی اس سے بڑھ کر اور دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ ایران اور روس سے پاکستان تجارت کرنے کی بات کی کرے تو پاکستان کو پابندیوں کی دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں جبکہ بھارت ایران سے تیل اور روس سے اسلحہ خرید کر بھی امریکہ کا سٹریجک پارٹنر ہونے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ایرانی صدر سری لنکا پہنچے ہیں مگر امریکہ سری لنکا کو آنکھیں دکھا رہا ہے ناہی سری لنکا امریکی تحفظات کو خاطر میں لانے پر آمادہ ۔ جبکہ ایرانی صدر کی پاکستان میں موجودگی کے دوران امریکی اہلکارپاکستان کو امریکی پابندیوں سے خبردار ہی نہیں کرتے رہے بلکہ ایرانی صدر کی پاکستان آمد سے پہلے امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے چار سپلائرز پر پابندی لگاکر اپنا فیصلہ بھی سنا دیا۔ دنیا بھر میں عالمی قانون، عالمی ادارے اور عالمی ٹیکنالوجی تک رسائی جیو پولٹکس کے زیرِ اثر ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری اپنے مفادات کے حصول اور ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کمزور ممالک کو بلیک میل کرتے ہیں ۔ امریکہ نے بے بنیاد الزامات اور بین الاقوامی سیاسی روایت کے خلاف الفاظ اور جملوںکا استعمال بڑھا دیا ہے اس کیساتھ ہی معاشی دباؤ اور پابندیوں کو مزید سخت بنانے کا عمل بھی جاری ہے ۔ امریکہ پاکستان سے تعاون اور امداد کو ایران سے تعلقات سے ہی مشروط نہیں کرتا بلکہ اسے پاکستان کے چین سے اقتصادی معاشی اور عسکری تعلقات پر بھی اعتراض ہے! کیوں ؟ اس کا جواب بھی خود امریکہ کے ہی سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے دیا ’’ امریکہ پاکستان کو نا اتنی ترقی کرنے کی اجازت دے گا کہ پاکستان کا امریکہ پر انحصار ہی ختم ہو جائے ناہی پاکستان کو اتنا کمزور ہونے دے گا کہ اس کا وجود اور امریکی مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔‘‘ یہ اسی امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک دائرے کے اندر گھوم رہے ہیں۔ موجودہ حالت میں دو طرفہ تعلقات محدود اور کمزور لیکن امریکی عملی معیار کے عین مطابق ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور چین پر قابو پانے کے لیے انڈو پیسیفک میں اس کے محور کے بعد امریکہ کے سٹریٹیجک تناسب میں پاکستان کی اہمیت نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔پاکستان کو بھی احساس ہے کہ وہ امریکہ کا قریبی اتحادی نہیں رہا لیکن جنوبی ایشیا کی دوسری سب سے بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے وہ امریکہ کے علاقائی مفادات سے لاعلم نہیں ۔ اسی طرح امریکہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان چین کے کتنا ہی قریب ہو جائے، امریکہ اب بھی پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور واحد سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین اور ایران سے پاکستان کے تعلقات کو محدود کرنے کے لئے اپنی معاشی برتری کو پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہا ہے۔ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک نے باہمی تجارت 10ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امریکی پابندیوں سے بچنے کے لئے یہ تجارت مقامی کرنسی میں ہی ممکن ہو سکتی ہے مگر امریکی ردعمل سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کو یہ بھی گوارہ نہیں مگر اہم تبدیلی یہ ہے کہ اس بار پاکستان نے امریکی ترجمان کے انتباہ کا جواب اپنے سابق سفارت کاروں کی جانب سے دیکر اپنا موقف امریکہ پر واضح کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔