آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نوگورنو قرہباخ کے متنازع خطے میں عارضی جنگ بندی عمل میں آ گئی ہے تاہم فائر بندی شروع ہونے کے ایک گھنٹے بعد ہی دونوں جانب سے اس کی خلاف ورزی کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔اس سے قبل دونوں جانب سے جنگ بندی شروع ہونے سے پہلے بھی شہری علاقوں میں گولے داغنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔اب تک دونوں ممالک کے درمیان 27ستمبر سے شروع ہونے والی اس کشیدگی کے باعث 300سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔معاہدے کے مطابق اس فائر بندی کا مقصد دونوں اطراف سے قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ ہے۔ آذربائی جان ایشیا کاوہ ملک ہے جو گزشتہ صدیوں میں روس اور ایران کے مابین فلیش پوائنٹ بنا رہااس کے شمال میں روس اور جارجیا،جنوب میں ایران ،مشرق میں کیسپئین سی اورمغرب میں آرمینیا ہے۔آج کل آذربائی جان ایک خود مختار ملک ہے۔جس کا صدر مقام باکو ہے۔امیرالمومنین سیدناحضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں جب ایران کے ساتھ آذربائی جان بھی فتح ہوا تھا۔حضرت حذیفہ بن یمان نے نہاوند سے آگے پیش قدمی کرکے آذربائی جان کو فتح کیا تھا،اس سے قبل یہاں ایران کے ساسانی بادشاہوں کی حکومت تھی۔ ساسانیوں کے عہد میں آذربائی جان کے حاکم کو مرزبان کہتے تھے۔حضرت حذیفہ نے مرزبان سے جس کا صدر مقام اردبیل میں تھا،معاہدہ کیا تھا۔یہ معاہدہ بلاذری کی فتوح البلدان میں موجود ہے۔ جس کی رو سے ایرانی حاکم نے آٹھ لاکھ درہم ’’تاوان جنگ ‘‘دینا منظور کیا اورحذیفہؓ نے وعدہ کیا کہ : کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ نہ کسی کو غلام بنایا جائے گا۔آتش کدوں کو مسمار نہیں کیاجائے گا۔ لوگوں کوان رسوم کی ادائیگی سے جوان میں رائج تھیں روکا نہیں جائے گا۔اس وقت کے آذربائی جان کا صدرمقام شِیز تھا ،اس شہر میں ایک مشہور آتش کدہ تھا جس کی زیارت کے لئے ساسانی بادشاہ تخت نشینی کے وقت آیا کرتے تھے۔فتح کے بعد عرب مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے،چوتھی صدی ہجری تک یہ مقامی آبادی میں بالکل گھل مل چکے تھے۔اموی خلافت کے دور میں ایران اسلامی ریاست کا ایک صوبہ تھا اورچونکہ آذربائی جان ایران ہی کاحصہ تھا لہذا یہاں بھی اسلامی ریاست کی عملداری رہی۔ بنوعباس کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی ۔سقوطِ بغداد کے بعد آذربائی جان منگولوں کے قبضے میں چلا گیا۔ہلاکوخان کی آمد1256نے آذربائی جان کو ایک وسیع سلطنت کا مرکز بنا دیا،جو دریائے جیحون سے لے کر شام تک پھیلی ہوئی تھی ۔پہلے آذربائی جان میں منگولوں کا صدر مقام مر اغہ تھا ،بعد میں تبریز ہوگیا۔پہلی روسی اورایران جنگ جو آذربائی جان کے مسئلے پر ہوئی۔1804 سے1813 تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی ،معاہدہ گلستان کے تحت داغستان ،جارجیااور آذربائی جان کے بیشتر حصوں پر روس کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔مقامی حکومتیں جو(Khanates) کہلاتی تھیں یا تو ختم ہوگئیں یاانہوں نے روسی حاکمیت تسلیم کرلی۔ 1917 کے کمیونسٹ انقلاب ا ور زار حکومت کے خاتمے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آذربائی جان کے قومی رہنماں نے آزاد ریاست کا اعلان کردیا۔محمد امین رسول زادہ کی مساوات پارٹی کی کوششوں سے آذربائی جان ڈیموکریٹک ری پبلک قائم ہوگئی۔روس نے جلد ہی اپنے انقلابی معاملا ت پر قابو پالیا اور دوبارہ آذربائی جان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا ۔یوں آذربائی جان کی آزاد ریاست صرف دوسال قائم رہ سکی پھر رو س کے تسلط میں چلی گئی۔ 28اپریل1920 کو رو س نے آذربائی جان کو (SSR =Soviet Socialist Republic) قرار دیا گیا ۔1991 میں افغان جہاد کے نتیجے میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو آذربائی جان نے 30اگست1991 میں آزادی کا اعلان کردیا ۔اسی طرح آرمینیا نے ستمبر1991 میں اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ آرمینیا ایشیا کا بلند ترین ملک ہے۔اس کے شمال میں جارجیا،جنوب میں ایران،مشرق میں آذربائی جان اور مغرب میں ترکی ہے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ ساسانی بادشاہ، آرمینی عیسائیت کو ظلم وتشدد کاشکار بناتے رہے تھے۔ بہرحال دونوں طاقتوں نییعنی بازنطینیوں اورساسانیوں نے آرمینیا میں مداخلت کا سلسلہ جاری سیدنافاروق اعظم کے عہدخلافت میں جب شام فتح ہواتوعرب بار بار آرمینیا پر بھی حملہ آور ہونے لگے لیکن آرمینیا کی باقاعدہ فتح حضرت عثمان کے دور کی بات ہے۔۔فاتح آرمینیا ،امیر معاویہ کے سپہ سالار حبیب بن مسلمہ تھے ۔حضرت معاویہ نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد41ھ661 آرمینیا کے لوگوں کو ازسرِ نو عربی سیادت قبول کرنے اور خراج اداکرنے کی دعوت دیتے ہوئے ایک خط تحریر کیا۔آرمینی امرا اس خط کی مخالفت کی جرا ٔ ت نہ کرسکے اس طرح آرمینیا دوبارا اسلامی خلافت کے ماتحت آگیا۔یہی صورت حال عباسیوں کے دور میں رہی ۔عثمانی ترکوں نے مغربی آرمینیا کو چودھویں صدی کے آخری دس سالوں میں بایزید اول کے عہد میں فتح کیا اور مشرقی آرمینیا کو اس کے بعد کی دو صدیوں میں محمد ثانی’’محمد فاتح‘‘ اورسلیم اول کے دور میں فتح کیا گیا۔ اس طرح پورے آرمینیا پر عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا ۔ آذربائی جان اور آرمینیا کی آزادی کے بعد بھی یہ مسئلہ سر اٹھا تا رہا۔اس حوالے سے دونوں ملکوں میں کئی جنگیں ہوئی ہیں۔ 1988، 1992 اور1994 میں سیز فائر ہوا لیکن سرحدی کشیدگی برابر جاری رہی۔2016 میں چار روزہ جنگہوئی۔27ستمبر2020 سے دوہفتے تک دونوں کے مابین جنگ ہوئی جس میں تقریباََ300افراد مارے گئے اورآزربھائجان نے درجنوں علاقے آرمینیاسے آزادکروائے ۔لیکن 10اکتوبر2020کوریڈکراس نے دونوں ممالک میں جنگ بندی کرائی معلوم نہیں کہ یہ جنگ بندی کن شرائط پرکرائی گئی اورکتنی مدت تک جاری رہ سکے گی ۔