یہ زمانے کا الٹ پھیر ہی تو ہے‘ روس اور چین امریکہ کی امداد کر رہے ہیں‘وہی سپر پاور امریکہ جس کا متکبر صدر ٹرمپ کل تک چین اور روس کی معیشت‘سائنسی ترقی اور سیاسی حیثیت کا مذاق اڑاتا تھا‘ چین میں کورونا نے پنجے گاڑے تو صدر ٹرمپ نے اس وبائی مرض پر چینی وبا کی پھبتی کسی‘ آج مگر طبی سازوسامان ‘ تکنیکی ماہرین اور اشیائے ضرورت سے لدے طیارے بیجنگ اور ماسکو سے واشنگٹن و نیو یارک کا رخ کر رہے ہیں‘ ستم رسیدہ امریکی عوام کو ان کی اشد ضرورت ہے‘ روسی صدر اور چینی سربراہ حکومت میں سے کسی نے وہ معاندانہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جو ایران کے ساتھ امریکی قیادت کاہے‘ وزیر اعظم عمران خان نے دس روز قبل امریکہ اور عالمی اداروں سے اپیل کی کہ بہ تقاضائے انسانیت ایران پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں مگر آج تک کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگی‘ امریکہ کے صدارتی اُمیدوار برنی سینڈر نے دو درجن ارکان کانگریس کے دستخطوں سے یہی مطالبہ کیا مگر ٹرمپ‘ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویراںہے۔ یہ بھی زمانے کا الٹ پھیر ہے کہ فرانس میں آدھا چہرہ ڈھانپنے والی باحجاب مسلم خواتین پر جرمانہ عائد تھا اب مردو زن کے چہرہ ڈھانپے بغیر باہر نکلنے پر پابندی ہے اور خلاف ورزی پر کم و بیش اتنا ہی جرمانہ‘ جتنا حجاب اوڑھنے پر نافذ تھا۔ صدر ٹرمپ نے فیس ماسک کے پیچھے بھاگے پھرنے اور نہ ملنے پر شکائت کرنے کے بجائے امریکی خواتین کو سکارف اوڑھنے کا مشورہ دیاجس پر ابھی تک کوئی مخالفانہ بیان سامنے نہیں آیا‘ یہی بات اگر کسی مذہبی رہنما نے کہی ہوتی تو آج کل بلوں میں چھپے انسانی حقوق کے علمبردار لبرل‘ سیکولر دانشور آسمان سر پر اٹھا لیتے کہ یہ ایک دقیانوسی لباس کی ترویج کا کون سا موقع ہے‘ دنیا بھر کے انسان قدرتی آفت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ان دو رکعت کے اماموں کو حجاب کی پڑی ہے‘ قدرت کے رنگ نرالے ہیں‘ کورونا نے مذہب‘ علاقے‘ نسل کی تفریق کے بغیر خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی نقاب اوڑھنے پر مجبور کر دیا‘ برسوں کے شناسا بھی ملاقات کے دوران تعارف کراتے ہیں کہ مبادا اجنبی جان کر مقابل سلام کا جواب نہ دے‘ ایک شخص کو البتہ داد دینی چاہیے کہ کورونا نے اس کا مزاج بدلا نہ انداز سیاست‘ بھارت کے انتہا پسند اور تنگ نظر حکمران نریندر مودی کا پرنالہ وہیں ہے جہاں کورونا کی آمد سے پہلے تھا‘ لاک ڈائون کا فائدہ اٹھا کر اس نے مقبوضہ کشمیر میں ڈومیسائل کا نیا قانون متعارف کرا دیا ہے جس کے تحت مسلم آبادی کا تناسب بدلنے کے لئے بھارتی شہریوں کی آباد کاری آسان ہو گی‘ اب چند سال سے مقیم بھارتی باشندے بھی جموں و کشمیر کی شہریت کے حقدار ہوں گے‘ شہریت کا سرٹیفکیٹ تحصیلدار جاری کرے گا جو ظاہر ہے حکومت کا فرمانبردار ملازم ہو گا۔ مودی نے 5اگست کو یکطرفہ اقدام کیا تو اسے توقع کے عین مطابق نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے شدید مخالفانہ ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑا‘ شلجموں سے مٹی اگرچہ ٹرمپ سمیت ہر ایک نے جھاڑی مگر اب جبکہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے ‘مودی نے صورت حال کا فائدہ اٹھا کر من کی مراد پوری کی مگر کل کس نے دیکھا ہے؟’’تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ‘ ‘قدرت کو یہ کھیل پسند نہ آیا تو معلوم نہیں بھارت اور اس کی تنگ نظر و ظالم قیادت کا کیا حشر کیا ہو گاکہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘کون جانے قانون شہریت کشمیری عوام کی کمر پر مودی کے ظلم کا آخری تنکا ہو‘ جسے برداشت کرنے سے وہ انکار کر دیں اور لاک ڈائون کے خاتمے پر آزادی کا سورج طلوع ہو‘ دنیا براُمید قائم‘ جہاں اس قدر انہونی ہو چکی‘ زمانے کا الٹ پھیر اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے‘جموں و کشمیر کے عوام آخر عالمی تبدیلی کے اس عمل سے مستفید کیوں نہیں ہو سکتے کہ قربانی کی تاریخ وہ رقم کر چکے اور بھارتی ظلم بھی حدود سے متجاوز ہے۔ کورونا سے نمٹنے اور لاک ڈائون سے متاثرہ خاندانوں کی امداد کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے ریلیف فنڈ کا اعلان کیا تو مخالفین نے مذاق اڑایاحامیوں نے دلیل دی کہ کاروبار بند ہے اور معیشت ڈیڑھ دو سال میں آکسیجن ٹینٹ میں پڑی آخری سانس لے رہی ہے‘ کون آگے بڑھ کر ریلیف فنڈ میں حصہ ڈالے گا‘ اکیلے حسین دائود نے مگر اینگرو گروپ کی طرف سے ایک ارب کا عطیہ دے کر ناقدین کے مُنہ بند کر دیے‘ اتنی بڑی رقم آج تک کسی ریلیف فنڈ میںکبھی ایک ادارے نے جمع نہیں کرائی‘ حسین دائود نے ملک بھر کے صنعتکاروں ‘ سرمایہ کاروں اور تاجروں کے لئے قابل تقلید مثال قائم کی ‘ میری معلومات کے مطابق کئی دوسرے کاروباری افراد اور تجارتی ادارے دائود خاندان سے زیادہ دولت مند ہیں اور مختلف سیاسی و غیر سیاسی ادوار میں انہیں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے‘ پیسہ بنانے کا موقع ملا‘ میاں محمد منشا‘ شریف خاندان‘ زرداری خاندان‘ جہانگیر خان ترین‘ سہگل خاندان اور کراچی کی چنیوٹی و میمن برادری وغیرہ وغیرہ اللہ تعالیٰ کو قرض دے کر کئی گناہ زیادہ واپس لینے کا یہ سنہری موقع شائد دوبارہ نہ ملے۔ فرمایا ’’کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو احسن طریقے سے قرض (قرضہ حسنہ) دے تاکہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا زیادہ بڑھائے چڑھائے کہ بدرجہا زیادہ ہو جائے‘ اللہ ہی تنگی پیدا کرتا اور وسعت دیتا ہے‘‘ ضروری نہیں کہ لوگ وزیر اعظم کورونا ریلیف فنڈ میں عطیات دیں‘ اخوت‘ الخدمت فائونڈیشن اور دیگر کئی ادارے موجود ہیں اور اپنے طور پر غریبوں کی مدد کرنے‘ ہسپتالوں میں طبی آلات‘ سازو سامان فراہم کرنے کی آپشن بھی کھلی ہے‘ امریکہ ’ سپین ‘ اٹلی میں صورتحال بہتر ہو گی تو پتہ چلے گا کہ کتنے ارب پتی وبا کی نذر ہوئے اور کس قدر تنگ دست بچ رہے‘ کورونا نے انسان کی کم مائیگی عیاں کر دی اب بھی اگر ہم نہ سمجھ پائیں تو یہ ہماری حرماں نصیبی ہے۔19مارچ 1940ء کو لاہور میں خاکساروں پر گولی چلی اور تھانہ ٹبی کے اردگرد زخمی خاکساروں کی گرفتاری کا بازار گم ہوا ‘ایک خاکسار کو بدنام زمانہ بازار کی ایک خاتون نے اپنے گھر میں پناہ دی‘ انگریز حکومت نے کسی خاکسار کو پناہ دینے پر سخت سزا کا اعلان کیا تھا‘ آغا شورش مرحوم نے بعدازاں اس خاتون سے پوچھا ’’ آپ نے یہ خطرہ مول کیوں لیا‘ انگریز فوجی گھر میں گھس آتے اور خاکسار کو موجود پاتے تو‘‘؟ خاتون نے ترنت جواب دیا‘ ’’میں نے سوچا زندگی بھر گناہ کئے‘ آج اللہ تعالیٰ کی رحمت دروازے پر دستک دے رہی ہے‘ معلوم نہیں دوبارہ یہ موقع ملے یا نہ ملے‘ دروازہ کھول دیا‘انگریز فوجی آ کر زیادہ سے زیادہ جان لے لیتے‘ نیک مقصد میں جاں کا زیاں کوئی زیاں نہیں۔‘‘جان کے لالے پڑے ہوں تو مال کا صدقہ زیاں نہیں‘ کئی گنا زیادہ کمانے کی تدبیر ہے۔