برلبِ ناز گل حرف دعا میرے لئے اے فلک دیکھ مجھے چشم گہر بار کے ساتھ کھا گیا مجھ کو مگر حرفِ تسلی اس کا کاش وہ گھائو لگاتا مجھے تلوار کے ساتھ ہائے ہائے خان صاحب نے کیا کہہ دیا کہ اپوزیشن این آر او کے لئے مجھے مائنس کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ تم نے روکے محبت کے خود راستے‘اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں۔ جناب اپوزیشن کی کیا مجال کہ وہ آپ کو مائنس کر سکے۔ وہ تو خود دونوں بلکہ سارے بیک جنبش قلم مائنس ہو گئے۔ سیاست میں آپ کا راج آ گیا مگر وہ چوپٹ راج ثابت ہوا ویسے بھی مائنس کرنے کا اختیار بھی ان کے پاس ہے جن کے پاس آپ کے علاوہ کوئی چوائس ہی نہیں۔ سب سے اہم بات خان صاحب نے یہ فرمائی کہ کرسی آنی جانی شے ہے۔ نظریہ نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کسی کے پاس بھی نظریہ ضرورت کے سوا کوئی نظریہ نہیں۔ اپوزیشن سے بڑا باطل صفت کون ہو سکتا ہے۔ واقعتاً ان کو تو پی ٹی آئی لوہے کے چنے چبوائے گی۔ کسی کے ساتھ این آر او نہیں ہو گا۔ مگر کیا دوستوں کے ساتھ این آر او جائزہے۔ یہ این آر او پر ہوتا کیا ہے۔ یہ چھوٹ اور درگزر ہی تو ہوتا ہے۔ آپ اسے چشم پوشی یا اغماض کہہ لیں۔ سیدھے لفظوں میں کرپشن کا سرٹیفکیٹ ۔کسی کی بھی لوٹ مار نظر انداز کرنا اسے این آر او دینا ہی ہے اور یہ سیدھی سیدھی وطن دشمنی ہے۔ یہاں کس کا احتساب ہوا۔ روزانہ کی بنیاد پر راجہ رینٹل جیسے مجرم بری ہو رہے ہیں۔ سب باتیں ہی باتیں ہیں۔ سزا وہی پائے جو انصاف خرید نہیں سکتا۔ عوام بہت سمجھدار ہو چکے ہیں۔ وہ سب سمجھتے ہیں کہ دودھ کون پیتا ہے اور بالائی کون کھاتا ہے۔ مفاد اور وسیع تر مفاد کی اصطلاحیں معنی کھو چکی ہیں۔ سارے اصول اور قوعد و ضوابط غریب ہی کو نتھ ڈالتے ہیں۔ میری باتیں تلخ ہوتی جا رہی ہیں کہ آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے۔ آخر پتہ تو چلے کہ یہ مافیاز کون ہیں ان کی سرپرستی کون کر رہا ہے کہ آئے دن وزیر اعظم کو پوچھنا پڑتا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ ان کو چھوڑیں گے نہیں۔بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی جان بڑی مشکل سے چھڑوائی اور ان کی ڈیمانڈز مان لیں۔ پہلے ہی لوگ دو برائیوں کے درمیان چھوٹی برائی کو چنتے تھے اور اب تین برائیوں میں سے سب سے چھوٹی برائی کی بات ہو رہی ہے۔ اچھا کوئی بھی نہیں۔جو بھی آتا ہے خواب دکھاتا اور ہم ان خوابوں میں رنگ بھرتے رہ جاتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ خواب کی اصل تعبیر تو حقیقت ہے اور حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔ مگر ہم بھی تو شاعر ٹھہرے کہ کچھ اور طرح سوچتے ہیں کہ: خوابوں سی دل نواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو اقبال نے تو حرف آخر کہہ دیا کہ ’’ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘۔ویسے ان بے چاروں کی اوقات بھی یہی ہے۔یہ لکھنا میرے لئے دلخراش بات ہے کیونکہ محبوب خدا نے تو مزدور کو بہت اہمیت دی کہ محنت کش اللہ کا دوست ہے۔ مگر کیا کریں عرف عام میں ہماری ناقص فہم نے اسے کمی بنا دیا ۔ہم کام کی عظمت کی بجائے اسے عیب سمجھنے لگے۔ یہی رویہ پنپ گیا کہ کمائے گی دنیا کھائیں گے ہم۔ ایسے تو نہیں حکیم الامت کو کہنا پڑا کہ جس کھیت سے دہکان کو میسر نہ ہو روزی۔ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ ٹھیک لکھا سعدیہ قریشی نے کہ ان ارب پتی اور کھرب پتی لوگوں کے مال کی حفاظت کے لئے جو محافظ کھڑے کئے جاتے ہیں اور جب وہ اس فرض شناسی کو نبھاتے ہوئے جان سے گزر جاتے میں تو ان کے گھر کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ حالیہ سٹاک ایکسچینج حملہ میں بے چارے محافظ چلے گئے اور واقعتاً حکومت کو اس کے پسماندگان کا سوچنا چاہیے کہ سرمایہ دار کے پاس وہ دل نہیں کہ جو پسیج جائے۔ کیا اچھا دور تھا جب خان صاحب مزدور کی تنخواہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے کرنے کی بات کرتے تھے کہ مغربی ممالک میں ایسے ہی ہے۔تعلیم اور صحت کی باتیں ان کی ترجیحات میں اولین تھیں۔ اب کے تو مزدور جیتے جی مر گیا۔ عجیب وقت آ گیا کہ وہ کام کرنا چاہتا ہے کوئی اسے کام پر لے جانے والا نہیں۔ اس کے پاس یوٹیلی بلز دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ اور تو اور گیس کا بل جو کسی شمار میں نہیں ہوتا تھا ہزاروں میں آتا ہے وہ بیمار ہو جائے تو ہسپتالوں میں اس کے لئے سہولیات ختم ہو چکی ہیں۔ وہ کولہو کا بیل بن کر بھی اپنے بچے پالنے کے قابل نہیں۔ محنت کش اپنی غذا بھی پوری نہیں کھا سکتا حالانکہ اچھی خوراک اس لئے ایسے ہی ہے جیسے مشین کے لئے تیل۔ مشین تو تیل کے بغیر رک جائے مگر جسم رک گیا تو پھر بحال نہیں ہو گا۔ چلیے ان تلخ باتوں کے بعد ایک آدھ مزیدار بات بھی ہو جائے کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ عمران خاں کے بغیر پی ٹی آئی کچھ بھی نہیں۔ اس بات میں حیریت تو کچھ بھی نہیں صرف ایک حقیقت بیان کر دی گئی لیکن اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی کے ساتھ خان صاحب بھی کچھ نہیں ہیں۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ مائنس خان کا مطلب تو مائنس پی ٹی آئی ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر چوائس تو موجود ہے وہی چوائس جو مائنس نواز شریف کے بعد ہونا تھی۔ اب کالم کے آخر میں مجھے ایک طرحدار شام کا تذکرہ کرنا ہے کہ جو بلبل کی طرح چہکتا ہوا اور نغمے گاتا ہوا ہمیں چھوڑ گیا ڈاکٹر کاشف رفیق نے بہت اچھا کیا کہ اس پیارے شاعر افراسیاب کامل کا شعری انتخاب بھی ہمیں پڑھا دیا۔ افراسیاب کامل چند اوریجنل شاعروں میں سے ایک تھا جو جدا گانہ بات کرتا تھا۔ اسی کے چند اشعار میری بات پر دلیل ہیں: زندگی جبر نے ایسے بھی روا رکھی ہے میرے ہونے پہ نہ ہونے کی سزا رکھی ہے ہم ہیں پرزے کباڑ کے پرزے کارآمد بھی ہیں فضول بھی ہیں جس میں کسی گماں کے اندھیرے کا راج ہو وہ بے چراغ آئینہ خانہ نہیں ہوں میں بلندی جھانک کر کہتی ہے مجھ کو تری پستی میں گہرائی بہت ہے اور افراسیاب کے لئے بخشش کی دعا کہ اللہ اس کے ساتھ آسانیاں وابستہ کر دے۔آمین