ہم کہاں جارہے تھے؟معلوم نہیں ،مگر ہم جارہے تھے ،مناظر تھے فکر انگیز۔ایک موٹر سائیکل سوار،جس کی گردن پیچھے کو مڑی ہوئی تھی،بڑی مشکل سے سامنے کی اُور دیکھ پارہا تھا ،چلا آرہا تھا،یہ دودھ فروش تھا،موٹر سائیکل دودھ کے بڑے برتنوں کے نیچے دَبی پڑی تھی۔پوچھا’’گردن پیچھے کو کیوں مڑی ہوئی ہے؟‘‘بتایا ’’ایک مُدت ہوئی ایکسیڈنٹ ہوا ،تب سے اَب تک گردن ٹھیک نہ ہوئی،کام بھی مجبوری ہے‘‘اُسی جگہ ایک شخص گدھا ریڑھی میں بیٹھا اُونچی آواز میں گیت گائے جارہا تھا،جس کے بول سمجھ میں نہیں پڑرہے تھے،اُس کی بابت بتایا گیا کہ مجذوب ہے،بستی کا ہر آدمی اس سے اپنے اپنے کام لیتا رہتا ہے ۔تھوڑی دیر ہوئی کہ ایک شخص کو لنگڑاتے چلتاپایا،پوچھاتو بتایا گیا کہ ساتھ ہی ٹرین کی پٹری پڑتی ہے ،ایک بار سرکنڈوں کے جھنڈ میں رفع حاجت کرکے نکلا ہی تھا کہ ٹرین کی زَد میں آگیا،ٹانگ دُور جاپڑی۔بتانے والے نے مزید بتایا کہ ٹرین کی پٹری پر سال میں دوایک بار خواتین بھی کٹی پڑی ملتی ہیں۔اِن خواتین کے سرسفید ہوتے ہیں۔یہ عجیب و غریب بستی تھی،ہم نے اس سے گزرکر آگے بڑھنا ضروری سمجھا۔آگے ایک قصباتی شہر پڑتا تھا۔تازہ سبزیوں اورپھلوں سے بھری ریڑھیاں تھیں،ریڑھیوں کو کھینچنے والوں کی بلند آوازیں تھی۔’’میٹھا خربوزہ پچاس کے تین کلو…دیسی توری،دس روپے کلو…دیسی کریلے اور بھنڈی دس روپے کلو…ٹماٹر پچیس کے تین کلو…پیاز ، تیس کی دھڑی… تربوز دس روپے کلو…‘‘ اِن ریڑھیوں پر لوگ رُک رُک کر سبزیاں اورپھل خریدتے پائے گئے۔ موٹر سائیکل اور چنگ چی رکشہ کی تعداد اس قدر کہ پہلے کبھی نہ دیکھی۔ایک میلی صورت والا آدمی موٹر سائیکل چلارہا ہے ،پیچھے تین خواتین برقعے اُوڑھے بیٹھی ہیں،معلوم نہیں یہ سب کہاں چلے جارہے ہیں؟ایک آدمی جس نے سگریٹ لگارکھی ہے ،موٹر سائیکل بھگاتاچلا جارہا ہے ،پیچھے ایک خاتون اور چاربچے بیٹھے ہیں ،ایک بچہ آگے ٹینکی پر بیٹھا ہوا ہے،اِس نے کیپ پہن رکھی ہے ،جو ہوا کی وجہ سے سر پر ٹھہرنے کو تیار نہیں۔ایک اور شخص موٹر سائیکل پر بہت آگے کی طرف ہو کر بیٹھا ہے،پیچھے دوکھاد کی بوریاں اُوپر نیچے رکھی پڑی ہیں اور ایک نوعمر لڑکا اُن کو پکڑ کر بیٹھا ہے۔ایک موٹر سائیکل کا سٹینڈ نیچے کو جھکا ہوا ہے ،جہاں سے موٹر سائیکل سوار گزرتا ہے ،لوگ اشارہ کرتے ہیں کہ سٹینڈ ٹھیک کر لو،وہ پائوں مار کر ٹھیک کرتا ہے ،مگر اگلے ہی جمپ پر سٹینڈ پھر نیچے آپڑتا ہے۔ایک خاتون غالباًاپنے شوہر کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھی کہیں جارہی ہے ، اُس کا دوپٹہ لٹکاہوا ہے ،کسی بھی وقت یہ دوپٹہ ،پہیہ میں آسکتا ہے اور خاتون نیچے گرسکتی ہے۔ایک جگہ چنگ چی رکشہ پر چھ لوگ بیٹھے ہیں ،ساتواں موٹر سائیکل کی سیٹ پر بیٹھا ہے ،آگے بیٹھے ہوئے سب لوگوں نے سگریٹ سلگائے ہوئے ہیں اور ایک ننھا ڈرائیور نیچے کھڑا موٹر سائیکل سٹارٹ کرنیکی کوشش کررہا ہے۔اُسی لمحے پولیس کی قیدیوں کی وین گزرتی ہے،قیدی جالیوں سے باہر جھانک رہے ہیں ،پسینے سے شرابورپولیس والے اندر بیٹھے نیند سے جھول رہے ہیں۔اِن قیدیوں کو مقامی عدالت میں لے جایا جارہا ہوگا،جہاں اِن کو پیش کیا جائے گا،پہلے بھی یہ قیدی کئی بار پیش کیے جاچکے ہوں گے ،یہ سلسلہ آمدہ وقت میں بھی جاری رہے گا۔ایک بڑی مونچھوں والا مہران گاڑی میں اکیلا کہیں تیزی سے جاتا پایا گیا،اُس نے ٹوٹی پھوٹی روڈ کا تصور تک نہیں کیا۔کسی بھٹہ سے پکی اینٹیں لاد کرگدھا ریڑھیوں کی قطارٹوٹی سڑک سے آہستہ بہ آہستہ گزرتی پائی گئی،گدھوں کو ہانکنے والے اینٹوں کی دھول میں اَٹے ہوئے تھے۔جوس کی دُکانوں کے باہر مصنوعی پھل لٹک رہے تھے،اندر لوگ بیٹھے جوس پی رہے تھے۔سڑک کے سینے پر گٹر اُبلے پڑے تھے،آوارہ کتے زبانیں لٹکائے اُن گٹروں کے پانیوں پر گرمی کی شدت کو کم کرنے کی خاطر لیٹے پڑے تھے،کوئی موٹر سائیکل بعض مرتبہ اُن پر چڑھ دوڑتی تو وہ اُٹھ کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ سڑک کے دونوں کناروں پر دُکانیں چھوٹی بھی تھیں اور بڑی بھی۔بعض دُکانیں تو اس قدر چھوٹی تھیں کہ دُکان دار ہی محض اندر سماسکتا تھا۔بعض کافی کشادہ تھیں ،مگر بیشتر گاہکوں سے خالی پڑی تھیں۔کچھ دُکانیںبرائے نام سامان کی حامل تھیں،ایک دُکان میں چند ٹکیوں ٹافیوں کے پیکٹ پڑے تھے،جن پر مٹی ہی مٹی تھی،سرف اور چائے کی پتیوں کے پیکٹ لٹک رہے تھے،یہ چائے کی پتی معلوم نہیں کہاں تیار ہوتی اور یہاں تک فروخت ہونے کیسے پہنچتی؟کچھ جوس کے ڈبے پڑے تھے،جن کو سالہاسال سے کسی نے خریدنے کی جسارت تک نہ کی۔بڑی دُکانوں پر جو اِکا دُکا گاہک تھے،اُن کے منہ ہاتھ دُھلے محسوس ہوتے ، ورنہ باقیوں کے چہروں سے لگتا کہ اِن پر مہینوں پانی کے چھینٹے تک نہ پڑے ہوں۔ مردوں کے چہروں پر بے ترتیب ڈاڑھیاں دیکھ کر محسوس پڑتا کہ بلیڈ اور ریزر یہاں فروخت ہونا بھول چکے ہیں ،حجام کی شاپس کی چابیاں کہیں کھو گئی ہیں۔دِن چونکہ بہت گرم تھا،گرمی سے بچنے کیلئے بیشتر لوگوں نے سروں کو رنگ برنگے رومالوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔سڑک کنارے کہیں کوئی پانی کا نلکا ملتا تو وہاں پانی پینے والوں کا رش ہوتا ، اردگر بھِڑ کافی تعداد میں بھی پائے جاتے۔پیڑوں کا نام و نشان نہیں تھا،پرندے کہاں سے نظر آتے؟مرکزی سڑک سے اندرمحلوں کو جاتی گلیاں تنگ تھیںیہ نالیوں کے گندے پانیوں سے بھری پڑی تھیں۔مرکزی سڑک اُونچی اور یہ گلیاں کافی نیچی تھیں۔گھروں کے دروازوں کے سامنے کی تھوڑی سی جگہ صاف ستھری ملتی ،باقی گلی گند سے اَٹی پڑی ملتی۔ہر گلی کی نکڑ پر پرچون کی دُکان ہوتی،جہاں بوڑھا دُکان دار سرکھجاتے بیٹھا پایا جاتا۔جس گلی میں چنگ چی رکشہ گزرتا،وہ گلی بند سی ہوجاتی۔یہ گلیاں چھوٹی بڑی عمر کے بچوں سے بھری پڑی تھیں۔ شام پڑنے والی تھی ،ہر کوئی تیزی میں تھا،سبزی اور پھل والے جلد از جلد بچاہوا مال بیچنا چاہتے تھے۔موٹر سائیکل اور چنگ چی پر سوار لوگوں کے چہروں پر بے چینی کی جھریاں ایک دوسرے کا راستہ کاٹ رہی تھیں۔ٹوٹی سڑک کا گرد وغبار،ٹریفک کا دھواں ،آوازوں کا شور،ہر چیز کو دھندلا چکا تھا۔ہر چیز سایہ معلوم پڑتی تھی،حالانکہ ایک چمکدار دِن اپنے اختتام کو پہنچتے ہوئے بھی چمکدار تھا۔ یہ ہے ہمارا آج کا کٹا پھٹا سماج،یہی ہمارا کل ہے۔مگر کسی کو تشویش نہیں ،ہر ایک شام ڈھلنے سے پہلے اپنا مال بیچنا چاہتا تھا۔