وسیب کی مردم خیز دھرتی ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی شاعر یقین محمد ساجد کا کلام سنا تھا ، ملاقات نہیں تھی ، یہ بھی سنا تھا کہ مرحوم عظیم صحافی جناب ارشاد احمد عارف کے بھی استاد تھے ۔ خواہش تھی کہ ان کا کلام کتابی صورت میں پڑھنے کو ملے ، پچھلے دنوں ڈی جی خان ڈاکٹر احسان احمد چنگوانی اور اکبر خان ملکانی کے ہاں ایک تقریب کا اہتمام تھا ۔ سٹیج سے اعلان ہوا کہ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر نعمان طیب چنگوانی سر انجام دیں گے ، ان کے تعارف میں بتایا گیا کہ آپ وسیب کے عظیم بزرگ شاعر جناب یقین محمد ساجد چنگوانی کے بیٹے ہیں ۔ آگے بڑھ کر ان سے ملا ، نہایت محبت سے ملے ، میں نے ان سے کتاب کی خواہش کی تو انہوں نے مجھے ’’ کلیات ساجد( حصہ اول ) ‘‘ کے نام سے کتاب عنایت کی جو کہ مارچ 2013ء میں شائع ہوئی ۔ کتاب میں حمد، نعت ، غزل ، نظم، ڈوہڑہ ، کافی ، مسدس ، مخمس اور قطعات شامل ہیں ۔ کتاب پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا کہ وہ کلام جس کے بارے میں ہم خواہش کر رہے تھے کہ وہ کتابی صورت میں محفوظ ہو، اس کا کم از کم ایک حصہ محفوظ ہو گیا ہے‘ درخواست ہے کہ بقایا حصہ جات بھی شائع ہونے چاہئیں ۔ کتاب کیا ہے ، اس بارے ساجد صاحب کا ایک سرائیکی شعر دیکھئے: حرفِ غم ہک کتاب بن گئی ہے یاد تیڈی عذاب بن گئی ہے کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر نعمان طیب چنگوانی نے لکھا ہے ، آپ نے بجا طور پر لکھا کہ ’’ قوموں اور زبانوں کو ہمیشہ عظیم شعرا نے زندہ رکھا ہے کہ لکھنے والے نہ بھی رہیں تو لکھا ہوا موجود رہتا ہے ، ساجد چنگوانی چلے گئے لیکن کلام ساجد آج بھی اسی شگفتگی اور تازگی سے گلستان شاعری میں بے مثل پھول کی مانند مہک کر رونق چمن بنا ہوا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر نعمان طیب نے لکھا کہ ’’ میرے ابا حضور نے1943ء میں نواب محمد موسیٰ خان چنگوانی کے بیٹے نواب گل محمد خان کے صاحبزادے در محمد خان کے ہاں جنم لیا ۔بچپن سے علم و ادب سے وابستگی رہی ، بہت بڑے زمیندار گھرانے کے فرد تھے ، اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے وسائل سے نوازا تھا ، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل تھا،وہ اپنے وقت کے قادر الکلام شاعر تھے ، سید احسان احمد گیلانی چیف ایڈیٹر تسخیر نے لکھا کہ ’’ ساجد چنگوانی صاحب بلند پایا شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ وسیب سے محبت کرنے والے انسان تھے ، ان کے کلام میں وسیب میں پائی جانیوالی محرومیوں کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ ‘‘ موصوف کی شاعری کے بارے میں بہت سے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں نے اظہارِ خیال کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ مبسوط تبصرہ جناب ارشاد احمد عارف کا ہے ۔ ’’ قطب مینار ‘‘ کے نام سے ان کی تحریر سے جہاں شاعر کی فنی اور فکری خوبیوں کا تذکرہ پڑھنے کو ملتا ہے ، وہاں اس وقت کے حالات کے بارے میں بہت سی معلومات بھی پڑھنے کو ملتی۔ جناب ارشاد احمد عارف لکھتے ہیں کہ ’’ جناب یقین محمد ساجد چنگوانی سے پہلی ملاقات زمانہ طالب علمی کے حسین یادوں کا حصہ ہے۔ دارالعلوم صدیقیہ شاہجمالیہ فیض آباد( مانہ احمدانی ) میں ان دنوں ساجد صاحب کا طوطی بولتا تھا کیونکہ وہ حضرت صاحبزادہ محمد اکرم شاہجمالی کے بے تکلف دوست تھے ۔والد محترم سید احمد شاہ صاحب ؒ نے برادر عزیز صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کے ساتھ فارسی کی تعلیم دلانے کے لئے اس دارالعلوم کا انتخاب کیا تھا کیونکہ صاحبزادہ محمد اکرم شاہجمالی اپنے والد گرامی حضرت خواجہ فیض محمد شاہجمالی رحمتہ اللہ علیہ کی طرح دینی علوم بالخصوص فارسی ادب کی تدریس کے حوالے سے خاصی شہرت کے حامل تھے ۔ فیض آباد آ کر یہ راز کھلا کہ حضرت صرف علم و ادب ہی نہیں بلکہ تقویٰ اور روحانیت میں بھی اپنی مثال آپ ہیں اور مذہبی لوگوں کی طرح محض زاہد خشک ہی نہیں بلکہ عمدہ شعری ذوق رکھتے ہیں ۔ ساجد صاحب کی ان سے قربت کا ایک سبب شعر گوئی اور دوسرے شعر فہمی تھا ۔ اور یہ تعلق ان طالبعلموں کیلئے نعمت غیر مترقبہ تھا جو اردو، فارسی اور عربی شاعری کی شد بد رکھتے تھے ۔ ‘‘ جناب ارشاد احمد عارف مزید لکھتے ہیں ’’ ہم دونوں بھائیوں کو ساجد چنگوانی صاحب کی فیض آباد میں موجودگی خوب راس آئی، ان کے عمدہ شعری ذوق کے علاوہ ادبی مطالعہ سے بھی خوب استفادہ کرنے کا موقع ملا ۔ حضرت صاحبزادہ محمد اکرم شاہجمالی اور حضرت صاحبزادہ محمد اعظم شاہجمالی کی طرح ساجد چنگوانی صاحب نے بھی ہم بھائیوں کی سرپرستی کی ، اپنائیت سے نوازا اور ایک ڈیڑھ سال کا یہ تعلق زندگی بھر قائم رہا ۔ فیض آباد کی رونقیں ان دونوں اگرچہ دارالعلوم کی وجہ سے تھیں مگر یہ محض ایک دینی ادارہ نہ تھا ، یہاں شعر و ادب کا چرچا تھا ، میلاد النبیﷺ کی محفلوں میں شعراء کی خاصی پذیرائی ہوتی تھی اور نعتیہ کلام سے دارالعلوم کے طلبہ کے ادبی ذوق کی آبیاری ۔ یقین محمد ساجد کا دور فارسی کا دور تھا ، وہ فارسی کے عالم تھے ، مگر ا نہوں نے سرائیکی کو اظہار کا وسیلہ بنایا ۔ البتہ فارسی کے اشعار ’’ کریما بہ بخشائے بر حال ما‘‘ کا سرائیکی میں خوبصورت ترجمہ کیا آپ سرائیکی میں لکھتے ہیں کہ ’’ تیڈٖے نال کہیں دا گمان ہے جِتی، اُتی بے پناہ کوں پناہ ہئی ڈٖتی ‘‘ ۔ تکرار لفظی شاعری کا حسن شمار کی جاتی ہے ۔ آپ نے اپنی شاعری میں نظر کا استعمال کتنی خوبصورتی سے کیا ہے ، آپ لکھتے ہیں ’’ نظراں سِکن نظریں کیتے ، نظروں نہ لک ہُن آ نظر، آ نظر ، اینجھا نظر ، نظریں دے وچ گھن پا نظر ‘‘ ۔ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ چنگوانی صاحب بہت اچھے انسان بھی تھے ۔ وہ مشاعروں میں نہیں جاتے تھے ، البتہ انہوں نے بہت سے شاگردوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا ۔ وہ اپنے وقت کے سرائیکی شعراء جانباز جتوئی ،دلشادکلانچوی ، نور محمد سائل اقبال سوکڑی ، دلشاد احمد پوری ،فیض محمد دلچسپ ، احمد خان طارق، خوشتر عباسی ،سرور کربلائی اور قیس فریدی سے متاثر تھے ، مگر شاعری میں ان کا اپنا انداز اور اپنا اسلوب تھا ۔ وسیب کے لئے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ علمی حوالے سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور کیلئے آپ کی لکھی گئی کتب آج بھی علمی سرمایہ شمار کی جاتی ہیں ۔ 3 اگست 2011ء بمطابق 2 رمضان المبارک آپ کی وفات کا دن ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگ روز روز نہیں صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور وہ مر کر بھی نہیں مرتے ، ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، اپنی خوبصورت یادوں کے ساتھ ۔ بابا بلھے شاہ نے سچ فرمایا ’’ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور ‘‘ ۔