دو چار سال ادھر کی بات ہے، اپنے گھر کی قریبی مارکیٹ میں جانا ہوا۔ اس روز حجاج میدان عرفات میں تھے اور بیشتر چینلز اس کے لائیو مناظر دکھا رہے تھے۔ مارکیٹ میں ایک جانب تین نوجوان موبائل فون کے ساتھ کچھ کرتے نظر آئے۔ میں نے پوچھا، بیٹا ! آج یوم عرفہ ہے نا ؟ تینوں نے کہا "جی انکل" وہاں سے دودھ والے کی دوکان پر گیا، اس سے بھی یہی سوال کیا، میری داڑھی کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا "یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کو پتہ نہ ہو کہ آج یوم عرفہ ہی ہے" وہاں سے نکلا تو اپنے سکول کی پرنسپل کو فون کر کے انسے بھی یہی سوال پوچھا جواب آیا "جی سر آج یوم عرفہ ہے" اس فون سے فارغ ہو کر اپنے دو تبلیغی دوستوں کو فون کر کے انسے بھی یہی سوال پوچھا، جواب آیا "جی ماشاء اللہ آج یوم عرفہ ہے" پھر کراچی، لاہور اور پشاور کے پانچ علماء کو فون کر کے ان سے بھی یہی سوال کیا، پانچوں کا کہنا تھا جی ہاں آج یوم عرفہ ہی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ پاکستان میں 8 ذی الحج کی تاریخ تھی اور کسی نے بھی نہیں کہا کہ آج یوم عرفہ نہیں بلکہ 8 ذی الحج ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ چار فرض عبادتیں ہیں جن میں سے دو تمام مسلمانوں پر فرض ہیں، ایک صاحب نصاب اور ایک صاحب استطاعت پر۔ آپ عاقل بالغ ہیں پوری دنیا میں جہاں بھی جب بھی نماز کا وقت آئے گا، آپ نے نماز اد اکرنی ہے آپ کی عقل و بلوغ کے بعد اگر کوئی چیز اس کی ادائیگی کے لئے شرط ہے تو وقت اور پاکی ہے۔ روزہ ماہ رمضان کے چاند سے مشروط ہے اس کرہ ارض پر ایک بھی ایسا مقام نہیں کہ آپ وہاں جاکر اسکی ادائیگی کے دائرے سے نکل جائیں، آپ کہیں بھی چلے جائیں رمضان کے چاند نے نمودار ہونا ہی ہونا ہے اور جب وہ نظر آیا تو آپ پر روزہ لازم ہوچکا۔ اسی طرح اگر آپ صاحب نصاب ہیں تو مقام کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، دنیا میں جہاں بھی موجود ہیں، اپنی زکوٰۃ وہیں سے ادا کرنا آپ پر فرض ہے۔ لیکن اگر آپ صحت مند بھی ہیں، زاد رہ بھی رکھتے ہیں، سفر حج کے لئے کوئی رکاوٹ بھی نہیں تو حج تو آپ پر فرض ہے، لیکن 8 ذی الحج کو آپ مردان یا لالہ موسیٰ میں بیٹھے ہیں تو کیا یہیں احرام باندھ کر گاؤں سے سات کلو میٹر باہر جاکر خیمہ لگا کر بیٹھ جائیں گے ؟ اگلے دن کسی میدان میں جاکر وقوف عرفہ کر لیں گے ؟ اس کے اگلے روز یوم النحر اور پھر جمرات کے ایام کر لیں گے ؟ نہیں بالکل نہیں ! کیونکہ اس کا مقام مخصوص ہے، اور اس بڑے مقام میں بھی پھر کئی مقامات ہیں، جن میں منیٰ، عرفات، مزدلفہ اور حرم شامل ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ آج یوم عرفہ ہے تو محض 9 ذی الحج سے بات نہیں بنتی بلکہ ذہن میں فوراََ خیال آتا ہے کہ آج حجاج میدان عرفات میں ہیں، اگر نو ذی الحج ہے اور حاجی میدان عرفات میں نہیں ہیں تو یہ پاکستان تو ہوسکتا ہے یوم عرفہ نہیں ہو سکتا۔ احادیث کے ذخیرے میں سن 9 ہجری سے قبل نو ذی الحج تو آٹھ ملتی ہیں لیکن کیا "یوم عرفہ" ایک بھی ملتا ہے ؟ پھر غور کیجئے یوم عرفہ کے روزے کے حوالے سے صرف ایک روایت موجود ہے جو صحیح مسلم میں ہے، اگر حج کی فرضیت سے قبل بھی کوئی یوم عرفہ اور اس کا روزہ ہوتا تو کیا بس ایک ہی روایت ہوتی ؟ پہلے سال یوم عرفہ آیا تو 9 ہجری تھی اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تھے، تین سو حاجی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں حج کے لئے گئے، جو رہ گئے انہیں اس کی برکت میں شریک کرنے کے لئے اللہ کے رسول نے یوم عرفہ کی نسبت سے روزے کی ترغیب دیدی، اگلے سال آپ خود حج (حجۃ الوداع) کے لئے تشریف لے گئے تو نہ آپ نے یہ روزہ رکھا اور نہ ہی کسی اور حاجی نے، کیونکہ اب سوال برکت میں شرکت کا نہ تھا بلکہ براہ راست وقوف عرفہ خود موجود تھا، چنانچہ آج بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ حاجی یوم عرفہ کا روزہ نہ رکھے وہ خود عرفات میں موجود ہے۔ یہ روزہ وہ رکھے جو یوم عرفہ کے آنے پر عرفات میں موجود نہیں اور اس کا دل مچل رہا ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو ایک مخصوص مقام کے ساتھ خاص ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ کسی مقام کے ساتھ خاص نہیں چنانچہ ان عبادات میں ٹائمنگ اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا لیکن حج سے اختلافِ مطالع یا ٹائمنگ کا کوئی تعلق نہیں۔ یومِ عرفہ وہ دن کہلاتا ہے جب حاجی عرفات میں ہوں، یوم عرفہ فقط تاریخ نہیں بلکہ وقوفِ عرفہ سے بھی جڑا ہوا ہے، پاکستانی 9 ذی الحج فقط 9 ذی الحج ہے یہ "یومِ عرفہ" ہرگز نہیں ہے۔ لھذا اگر یہ روزہ 9 ذی الحج کا ہے تو پھر تو ٹھیک ہے پاکستان میں جب بھی 9 ذی الحج ہوگی یہ روزہ اسی دن ہوگا لیکن اگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روزہ وقوفِ عرفہ سے تعلق رکھتا ہے تو پھر یہ اسی دن ہوگا جب وقوف عرفہ ہو رہا ہوگا۔ آپ پاکستان میں 8 ذی الحج کو کسی سے بھی پوچھ لیں کہ یوم عرفہ کب ہے ؟ وہ جواب دے گا کہ "آج ہے" لیکن اگر آپ اس سے یہ پوچھ لیں کہ عید کب ہے تو وہ کہے گا "دو دن بعد" اسی طرح اگر آپ 9 ذی الحج کو کسی سے پاکستان میں پوچھ لیں کہ یومِ عرفہ کب ہے ؟ تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ "آج ہے" بلکہ کہے گا "کل تھا" یہ روزہ اس دن رکھا ہی اس لئے گیا تھا کہ جو لوگ حج میں شریک نہیں ہو سکے وہ رکن اعظم کی نسبت سے روزہ رکھ کر اجر پا سکیں، جب یہ روزہ تعلق ہی اس رکن اعظم سے رکھتا ہے تو پھر اگلے دن رکھنے کا کیا مطلب ؟ اس روزے کا عاشورہ کے روزے کی طرح تاریخ سے نہیں بلکہ "وقوف عرفہ" کے عمل سے تعلق ہے اور چونکہ وقوفِ عرفہ ایک ایسی عبادت کا رکن اعظم ہے جو دنیا کے ہر گوشے میں نہیں بلکہ فقظ ایک ہی مقام پر ہوتی ہے لھذا اسی مقام والا 9 ذی الحج یوم عرفہ ہے کسی اور مقام کا 9 ذی الحج اختلاف مطالع کے ساتھ یوم عرفہ نہیں ہو سکتا۔