شاید پہلا موقع ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایسا پیغام دیا، پیسے چاہییں تو اپنے ملک میں آئین بحال کریں اور انتخابات کرائیں۔یہ صاف پیغام تھا کہ آئی ایم ایف پانچ سال کے لیے منتخب ہو کر آنے والی حکومت ہی سے ڈیل کرے گی،جس حکومت کے مستقبل کا کچھ پتہ نہ ہواور مستقبل کی معاشی پالیسیوں پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوں،کون اسے پیسے دینا چاہے گا۔ پاکستان نے اپنی خفت مٹانے کے لیے بیان تو دے دیا کہ آئی ایم ایف کا بیان پاکستان کے اندر ونی معاملات میں مداخلت ہے لیکن اصل مسئلہ بیان بازی میں دبا دیا گیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پیکج ایکسپائر ہونے میں محض تیس دن باقی رہ گئے ہیں۔پاکستان کی معیشت کو اس پیکج کی بحالی کا انتظار تھا کہ اس کے بعد ہی دوست ممالک کے جانب سے بھی چند سکے ہمارے کاسے میں اچھالے جانے تھے۔ اپنی نام نہاد عزت بچانے کی خاطر ہم نے منہ کھول کے آئی ایم ایف کے خلاف بیان تو دے دیا مگر اب خالی جھولی لیے بیٹھے ہیں۔ آئی ایم ایف شاید اندھا ہے یا ہم اسے اندھا اور بیوقوف سمجھتے ہیں۔ آئین کی پامالی کے لیے آئی ایم ایف سمیت دنیا بھر کو پیغام دیا گیا تھا کہ ہمارے پاس تو الیکشن کرانے کے لیے 20 ارب تک نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جب سپریم کورٹ کو بتائیں گے کہ ہماری جیب خالی ہے تو اخبارات میں چھپنے والی یہ خبر آئی ایم ایف تک تو پہنچے گی نہیں اور پھر چند دن کے بعد ہم 20 ارب روپے ایم این ایز کو گلیاں اور نالیاں بنانے کے لیے دیں گے تو کوئی سوال نہیں کرے گا اور الیکشن بجٹ میں جب گلی محلوں کے چھوٹے چھوٹے کام کرانے کے لیے 89 ارب روپے رکھیں گے تو بھی کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ اب تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید حکومت آئی ایم ایف پیکج کی بحالی کے لیے سنجیدہ ہی نہیں تھی کیونکہ اس کی شرائط میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بجٹ کو آئی ایم ایف کے فریم ورک میں لایا جائے۔ اگر حکومت اپنا بجٹ آئی ایم ایف کے مطابق بناتی تو شاید اسے الیکشن بجٹ پیش کرنے کی اجازت نہ دی جاتی۔ یہ مانتے ہوئے بھی کہ آئی ایم ایف پیکج پاکستان کی معاشی صورتحال کے لیے نہایت اہم ہے ،حکومت نے اپنے الیکشن پروگرام کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا اور اب یہ تقریبا طے ہے کہ حکومت پیکج کی بحالی کے عمل سے دستبردار ہو گئی ہے ۔ بجٹ کے بعد اگست میں نئے پروگرام پر بات شروع ہو گی،فی الحال تو الیکشن نہایت ضروری ہے۔پہلے الیکشن لڑ لیں اکانومی جائے بھاڑ میں۔ہمیں کیا جو آئے گا خود نبڑے گا ۔ صورتحال اس وقت اس قدر سنگین ہے کہ بہت سے ماہرین کے خیال میں اگلے تیس دن میں اگر آئی ایم ایف کا پیکج بحال نہیں ہوتاتو ہم ڈیفالٹ کر جائیںگے۔جبکہ کچھ ماہرین کے خیال میں تو ہم پہلے ہی ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ہماری جیب میں اس وقت 4.1 ارب ڈالر کی رقم موجود ہے جبکہ اگلے ایک سال میں ہمیں 41 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔قرضوں کی ری شیڈولنگ کا عمل تاحال شروع نہیں کیا جا سکااور اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔ہم ڈھیٹ بن کے بیٹھے ہیں کہ جسے اپنے قرضے واپس چاہییں آ کے ہماری تلاشی لے لے ،ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اگر پاکستان کو اپنے پیکج کی بحالی مطلوب ہے تو اس کے پاس دو مہینے کی امپورٹ کے پیسے ہونے چاہیئں ،گویا پاکستان کے خزانے میں کم از کم 11ارب ڈالر کی ایک معقول رقم موجود ہونی چاہیے۔ ہمارے پاس چار ارب ڈالر پہلے سے موجود ہیں ، آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس مقصد کے لیے ہم کم از کم 6 ارب ڈالر دوست ممالک سے جمع کریں ۔بہت دوڑ بھاگ کے بعد ہم 3 ارب ڈالر کے صرف وعدے حاصل کرپائے ہیں وہ بھی مشروط ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے پیسے آئیں گے تو یہ پیسے ہمیں ملیں گے۔ اب آئی ایم ایف کہتا ہے پہلے چھ ارب ڈالر لائو اور دوست ممالک کہتے ہیں پہلے آئی ایم ایف کی ڈیل لائو۔ اوقات ہماری یہ ہو گئی ہے کہ کوئی بھی ہم پہ بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ ان کو پیسے دے کر رقم ڈبونے والی بات ہے واپس تو ان سے ملنے نہیں ہیں ۔ ہماری حیثیت اس غریب نکھٹو کی سی ہو گئی ہے جو اپنے اللے تللوں کے لیے دوسروں سے رقم کی واپسی کا وعدہ کر کے پیسے مانگتا ہے ، مانگنے اور دینے والے دونوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ رقم واپس نہیں ہونی۔ تبھی ایک وقت آتا ہے بار بار رقم دینے والا انکار کر دیتا ہے ،وہ جانتا ہے کہ بہت بار اسے پیسے دے کر دیکھ لیے،یہ سدھرنے والا نہیں۔ پاکستان کا ایک اور حربہ بھی ناکام ہوتا نظر آتا ہے۔ ہم امریکہ کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف ہماری مدد کو نہ آیا تو ہمارا چین پہ انحصار بڑھ جائے گا گویا چین کا پاکستان پہ اثر و رسوخ بڑھ جائے گا اور امریکہ یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان امریکہ کو چھوڑ کر چین کی گود میں جا بیٹھے۔لیکن امریکہ کو چین کا یہ ڈراوا بھی تب کام کرے گا جب چین پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہو گا ،ابھی تک تو چین کی جانب سے بھی سرد مہری کا رویہ جاری ہے۔چین کا بھی خیال ہے کہ بار بار کی تنبیہ کے بعد بھی اگر یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں، اپنا سیاسی بحران ختم نہیں کرنا چاہتے اور اپنی انائوں پر اپنا ملک قربان کرنے کے درپے ہیں تو ہمیں کیا پڑی ہے کہ ان کی مدد کو آئیں۔ اور پھر پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے سے چین کی سلامتی کو ایسے کون سے خطرات لاحق ہونے والے ہیں جو ہم اس پہ احسان کرتے پھرتے ہیں۔ ڈالر جون کے مہینے میں ساڑھے تین سوروپے تک پہنچنے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔انٹر بینک ریٹ کے مطابق ڈالر کہیں مل نہیں رہا۔ ایل سیز بند پڑی ہیں۔ دل کے مریضوں کو لگنے والا پیس میکر تک باہر سے نہیں منگوایا جا پا رہا۔ جانے ہمیں حالات کی سنگینی کا احساس کب ہو گا۔