دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کا آغاز گیارہ ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے ہوا، اسے آناً فاناً ایک عالمی جنگ میں تبدیل کر دیا گیا۔دوعمارتوں کا گرنا اور چند ہزار لوگوں کا مرنا اس قدر بڑا جرم بنا دیا گیا،جس کی پاداش میں ایک نہتے اور بے سروسامان ملک افغانستان پر چڑھ دوڑنے کا لائسنس اس اقوامِ متحدہ نے دیا جس کا قیام اس لئے ہوا تھا کہ وہ امن کی ضمانتیں حاصل کرے اور جنگوں کو روکے۔ پاکستان کو پڑوس میں ہونے کی وجہ سے ایک بار بہت زیادہ اہمیت مل گئی۔کچھ ہمیں بھی امریکہ کی نظروں میں ایک بار پھر جگمگانے کا شوق چڑھا ہوا تھا۔ ہماری ذِلت و رُسوائی یہاں تک آ پہنچی تھی کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے 17 مارچ سے 25 مارچ 2000ء تک سات دن بھارت میں گزارے اور اعتراف کیا کہ ہم نے بائیس سال بھارت کو نظر انداز کیا، لیکن اب یہ ہمارا آئندہ کا دوست اور حلیف ہو گا۔ پاکستان کی پچاس سالہ وفاداری کا یہ ’’صلہ‘‘ دیا گیا کہ ہماری سرزمین پر چند لمحے قدم رکھا، ایک وائسرائے کی طرح ٹیلی ویژن پر پاکستانی قوم سے خطاب کیا، ’’بندے دا پُتر‘‘ بننے کی ہدایات دیں اور چلے گئے۔ لیکن 9/11 نے پاکستان کی ضرورت اور اہمیت اُجاگر کی تو پاکستانی لیڈر شپ کی ’’اندرونی بزدلی‘‘ نے ہمارے لئے راستے کٹھن ہی نہیں بے ثمر بھی کر دیئے۔ کوئی ضیاء الحق ہوتا تو جنگ میں کودنے سے پہلے امریکہ کو اس کی اوقات یاد دلاتا کہ تم ہمارے بغیر یہاں کچھ نہیں کر سکتے اور یہ جو امداد تم ہمیں دے رہے ہو یہ انگریزی محاورے میں Peanuts یعنی چند مونگ پھلی کے دانے ہیں، اسے اپنے پاس رکھو، امریکہ کو اپنی شرائط پر راضی کرتا اور اس افغان جنگ کا ایسا نتیجہ نکلتا جیسا سوویت افغان جہاد کا نکلا تھا کہ دُنیا بھر کی مخالفت کے باوجود امریکی صدر ہر چھ ماہ بعد یہ سر ٹیفکیٹ جاری کرتا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پر امن ہے اور وہ ایٹم بم نہیں بنا رہا۔ افغان جہاد کا کوئی اور صلہ ہو یا نہ ہو، پاکستان کا ایٹم بم اتنا بڑا تحفہ ہے کہ اس نے ہمارے دفاع کو مضبوط کر دیا ہے۔ یہی وہ بائیس سال تھے جس کے بارے میں بل کلنٹن نے کہا تھا کہ ہم نے بھارت کو نظر انداز کیا۔ گیارہ ستمبر کے حادثے کے وقت ہمیں مشرف کی صورت میں ایک ایسی قیادت میسر تھی جسے Spineless یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والی قیادت کہتے ہیں۔ امریکہ کے سامنے ایسے جھکے کہ پاکستان کی مدد سے 7 اکتوبر 2001ء میں امریکی افواج جب افغانستان میں داخل ہوئیں تو وہ ایسے افغان دستوں کے ہمراہ کابل آئیں ہیں، جن کا اوڑھنا بچھونا پاکستان دشمنی اور بھارت دوستی تھا۔ شمالی اتحاد جسے بھارت، تاجکستان اور ایران کے ذریعے مسلسل فوجی اور مالی مدد فراہم کرتا چلا آ رہا تھا۔ 7 اکتوبر 2001ء سے 15 اگست 2021ء تک بیس سال افغانستان، امریکی سرپرستی میں پاکستان مخالف بھارتی بیس کیمپ بنا رہا۔ جو بھی حکومت وہاں برسرِاقتدار لائی گئی اس کا جھکائو بھارت کی جانب تھا۔ بھارت ان کی منصوبہ بندی میں شامل تھا اور ان کی فوج اور پولیس کی ٹریننگ کا ذمہ دار بھی۔ تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں جہاں پارلیمنٹ کی بلڈنگ اور سلمیٰ ڈیم بنایا گیا وہاں پاکستان میں تخریب کاری کیلئے جگہ جگہ چھیاسٹھ کیمپ بھی قائم کئے گئے۔ لیکن پندرہ اگست 2021ء کو طالبان نے جس ملک کو عملی طور پر کان سے پکڑ کر نکالا وہ بھارت تھا۔ ان بیس سالوں میں پاکستان میں بھی جو کچھ ہوا وہ ناقابلِ یقین ہے۔مشرف دَور میں اور اس کے بعد زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں میں بھی بھارت سے پینگیں بڑھانے اور ایک گنگا جمنی تہذیب و کلچر میں رنگ جانے کا ایسا چلن چلا کہ ساری تاریخ اور قیام پاکستان کے سارے زخم بحیرۂ عرب میں پھینک دیئے گئے۔جس بھارت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کلکتہ میں جیتی تھی تو سٹیڈیم کو آگ لگا دی گئی تھی لیکن اس کے برعکس بھارتی ٹیم لاہور میں جیتی تو جشن منایا گیا۔ اس پر ایک بھارتی اخبار نے لاہوریوں کے جوش و خروش کو دیکھ کر یہ ہیڈ لائن لگائی تھی "Lahore was like a bitch in the heat" (لاہور ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی کتیا خمار میں ہو)۔ ’’سیفما‘‘ ایک ایسی جگہ تھی جہاں پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا سربراہ نواز شریف بھی کھڑے ہو کر اس سرحد کا انکار کرتا ہے جو مسلمانوں نے اپنے خون سے کھینچی تھی۔ جبکہ اس ڈیورنڈر لائن کو مقدس سمجھا جانے لگا جو انگریزوں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کیلئے کھینچی تھی۔ دونوں جانب باڑ لگا کر یہ ثابت کیا گیا کہ بھارت اور افغانستان دونوں ممالک ہمارے دشمن ہیں۔ افغانستان سے دُشمنی کی روایت اور اس کا بیج انگریز نے ڈالا تھا اور اس کی بنائی ہوئی افغان پالیسی آج بھی ہماری سیاسی اشرافیہ اور عسکری قیادت میں احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ 1845ء میں انگریز کی کابل میں ذِلت آمیز شکست تھی اور انگریز نے یہ جان لیا تھا کہ افغانستان ایک ناقابل شکست سرزمین ہے، اس لئے اس نے ’’کندمک‘‘ معاہدے کے بعد ڈیورنڈر لائن پر پختہ مورچے بنا کر اسے دُشمن علاقہ قرار دے دیا۔ وہ سرزمین جس کے محلہ ہجویر ضلع غزنی سے داتا گنج بخشؒ تشریف لائے۔ جہاں کے ابوالحسن خرفانی کے خرقے کی برکت سے شہاب الدین غوری کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ جہاں کے ’’ہرات‘‘ شہر میں پیدا ہونے والے مولانا جامی کی نعتیں ہم آج بھی پڑھتے ہیں۔ جہاں کے ’’بلخ‘‘ شہر میں پیدا ہونے والے مولانا روم کا فلسفہ اور شاعری ہماری تہذیب و ادب کا حصہ ہے۔ ہماری تمام روایات ہمارا لباس، ہماری شاعری، ہمارے کھانے، ہماری موسیقی یہاںتک کہ ہمارا سیاسی رشتہ بھی افغانستان سے جُڑا ہوا ہے۔ جہاں سے محمود غزنوی سے لے کر ظہیرالدین بابر تک سب ہماری شناخت کے امین تھے۔ لیکن ہمیں ان بیس سالوں میں دھکیل کر اس گنگا جمنی تہذیب کے چرنوں میں پھینکنے کی کوشش کی گئی۔ مسلمان ممالک خصوصاً افغانستان، ایران اور روس سے آزاد مسلمان ریاستوں کی تنظیم کو زبردستی غیر فعال کیا گیا اور ’’سارک‘‘ کو فعال بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ امریکہ اور عالمی اتحاد نے بھارت کو براستہ ایران و افغانستان اس خطے میں بالادستی کا جو سر ٹیفکیٹ جاری کیا تھا اسے اب طالبان نے پھاڑ کر پھینک دیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ امریکہ کو بھی اب فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کا اصل دوست اور ساتھی بھارت ہے یا پاکستان اور امریکہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بھارت اب اس کا دوست ہو گا۔ کیونکہ اس کی اگلی لڑائی چین کے ساتھ ہے جس کے معاملے میں وہ پاکستان پر اعتماد نہیں کر رہا۔ ایسے پاکستان میں موجود وہ طبقہ جو سیاست دانوں، بیورو کریسی اور فوج میں موجود ہے لیکن طبقے کی بہت بڑی تعداد میڈیا اور ادبی دُنیا میں ہے۔ یہ طبقہ خواہش رکھتا ہے کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر امریکہ کی جھولی میں رقص کریں اور افغانستان کو ایسے ہی دُشمن سمجھیں جیسے انگریز اسے بنا کر گیا تھا۔ یہ پاکستان کیلئے بہت فیصلہ کن مرحلہ ہے کہ اس افغانستان کو اپنا دوست رکھتا ہے جس کا احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہ کے خط پر اس ملک کے مسلمانوں کے تحفظ کی جنگ میں کُود پڑتا ہے یا اس بھارت کے ساتھ دوستی کرتا ہے جہاں بسنے والے 25 کروڑ مسلمان بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس چین کا کھل کر ساتھ دینا ہے جس نے ابھی تک کسی ملک کو دھوکہ نہیں دیا یا اس امریکہ کا ساتھ دینا ہے جس کی پاکستان کے ساتھ فریب اور دھوکہ دہی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ (ختم شد)