ریاست عوام کے نان و نفقہ کی ذمہ دارہے۔ اس کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس کی عملداری میں کوئی شہری بھوکا نہ سوئے۔خوف خدا اعلی ترین معیار پہ حاصل ہوجائے تو بحر و بر کی وسعتوں پہ پھیلی اسلامی ریاست کا حاکم خشیت الہیہ سے بوجھل لہجے میں اعلان کرتا ہے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر اس کا ذمہ دار ہے۔ وقت نے دیکھا کہ جب مدینہ میں قحط پڑا تو خلیفہ وقت نے روغن سے ہاتھ کھینچ لیا کہ یہ اس کی مملکت کے ہر فرد کو میسر نہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ اس دوران چوری کی حد موقوف کردی گئی کہ روٹی چرانے والا اس کا سزاوار نہ تھا۔ یہ ریاست کا فرض تھا کہ وہ بھوکے کو روٹی مہیا کرے۔یہ بھوکے کا حق تھا کہ وہ چھین کر ، چرا کر یا جس طرح ممکن ہو روٹی کھا سکے۔سوشلزم کے دعوے دار اور روسو اور والٹیئر کے معاہدہ عمرانی کے مداحین کو نوید ہو کہ بائیس لاکھ اکیاون ہزار تیس مربع میل پہ پھیلی اسلامی سلطنت کا مطلق العنان خلیفہ ، جو اللہ کے سوا کسی کو جوابدہ نہ تھا، اپنے ایک ایک فرد کی نگہبانی ایسے کرتا تھا جیسے گڈریا اپنے ریوڑ کی۔ آج یورپ کی بیشتر فلاحی ریاستوں کے بنیادی اصول اسی ایک شخص کی حکمت،اخلاص، تدبر اور خشیت الہی کے مرہون منت ہیں ۔ہر شہری کو بنیادی مفت تعلیم،وظیفہ،خوراک اور سائبان۔اور تو اور اشتراکی ممالک بالخصوص سوویت روس کو آج بھی آہیں بھر کے یاد کرنے والوں کو اطلاع ہو کہ مفت روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے بھی اشتراکیت نہیں،مثالی اسلامی حکومت کے بنیادی اصول ہیں البتہ کسی خلیفہ وقت نے عوام کو کھوکھلے نعروں کی بھیک نہیں دی ۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ عمر ثانی، عمر بن عبدالعزیز نے لنگر خانے اس لئے کھول رکھے تھے کہ ملک میں بیروزگاری اور غربت کا دور دورہ تھا اور عوام کے پا س کھانے کو نان جویں بھی میسر نہ تھا تو یہ اس کی کم علمی ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز نے، جو عدل و انصاف اور انتظامی امور میں اپنے پڑنانا سیدنا عمر کے پرتو تھے، ٹیکس، محصول،خراج اور جزیہ کی اصلاح کی۔بیت المال کی اصلاح کی اور اس کے درست استعمال کو یقینی بنایا جو ان کے اجداد کے زمانے میں ممکن نہیں رہا تھا۔ ان سے قبل عمال نے اپنی ہوس اور لالچ کی تسکین کے لئے جو ظالمانہ ٹیکس لگا رکھے تھے، انہیں منسوخ کیا۔حد تو یہ ہے کہ بنو امیہ کے سربرآواردہ افراد نے جن زمینوں پہ غاصبانہ قبضے کررکھے تھے انہیں حق داروں کو واپس کیا۔اس کے باوجود انہوں نے اپنی عملداری میں جابجا پناہ گاہیں بنوائیں،لنگر خانے کھولے اور مہمان خانے تعمیر کروائے۔ جبکہ ریاست عدی بن حاتم سے مروی اس حدیث پاک کا عملی نمونہ تھی جس کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا جب کوئی متمول شخص ہاتھ میں سونا اور چاندی لے کر صدقہ کی نیت سے بازاروں میں پھرے گا لیکن کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ہوگا۔یحیی بن سعید کا بیان ہے کہ مجھے خلیفہ نے صدقہ وصول کرنے افریقہ بھیجا۔ میں وہاں پہنچا اور صدقہ اورزکواۃ وصول کرکے مستحقین کو ڈھونڈتا رہا لیکن مجھے کوئی فقیر،منگتا یا مستحق نہ ملا کہ میں ان میں اسے تقسیم کرتاکہ عمر بن عبدالعزیز نے لوگوں کو فقیر رہنے ہی نہیں دیا تھا۔میں نے اس رقم سے غلام خریدے اور آزاد کردئیے۔یہ اسی افریقہ کا تذکرہ ہے جو جدید جمہوریت اور ترک شدہ اشتراکیت میں فاقہ کشی، قحط اور غربت کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا۔ لاکھوں مربع میل پہ پھیلی عظیم اسلامی ریاست کے والی سیدنا عمر ،اپنی عوام کے لئے لنگر کا انتظام کیا کرتے تھے۔ اس پہ بھیک یا بخشش کی بھپتی کسنے والا کوئی نہیں تھا۔ سیدنا علی مرتضی اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی میں لنگر کا انتظام کرتے تھے۔ کسی نے پوچھا لنگر کا انتظام کرنے والا کہاں ہے۔بتانے والے نے بتایا وہی جو سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھارہا ہے۔ ریاست مدینہ کے تذکرے سے کچھ دل تنگ ہوتے ہیں تو امریکہ اور یورپ آجائیے ۔امریکہ میں فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے تحت کم سے کم چالیس سے پچاس ملین افرادمفت خورا ک اپنی ریاست سے حاصل کرتے ہیں۔ کوئی انہیں بھیک منگا نہیں کہتا نہ ہی وائٹ ہاوس پہ پھبتیاں کستا ہے۔یہ پروگرام سن تیس کی دہائی سے اب تک کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔ اس کے باوجود کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سپر پاور ہے ان بھوکوں کی تعداد اب بھی کم سے کم پچاس ملین ہے اور دن بدن بڑھ رہی ہے۔ فیڈنگ امریکہ ، جو بھوکوں کو مفت خوراک مہیا کرنے کی سب سے بڑی غیر سر کاری تنظیم ہے،اپنے دو سو سے زائد فوڈ بینکوں کے ذریعے پچاس ملین افراد کو روزانہ کھانا کھلاتی ہے۔ برطانیہ کو دنیا کی ہی نہیں انسانی تاریخ کی امیر ترین سوسائٹی سمجھا جاتا ہے۔ اس امیر ترین ملک میں کوئی 135کے قریب ارب پتی افراد رہائش پذیر ہیں۔دنیا کی مہنگی ترین بیت رواں کی انڈسٹری یہیں پہ ہے۔کینسنٹن پیلس گارڈن،ویسٹ لندن جیسے علاقوں میں جائداد کی اوسط قیمت پینتیس ملین یورو سے زائد ہے۔کئی سال قبل ایک ہزار امیر ترین افراد کی دولت کا تخمینہ 658 بلین یورو لگایا گیا جو پچھلے سال سے چودہ فیصد زیادہ تھا۔اس انتہائی امیر افراد کی انسانی ہمدردی پہ استوار فلاحی ریاست کا عالم یہ ہے کہ اس میں ہزاروں نہیں لاکھوں افراد نان شبینہ سے محروم ہیں اور پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے پرائیویٹ یا سرکاری لنگر خانوں کے محتاج ہیں۔ان میں صرف ٹروسل ٹرسٹ نامی ادارہ بھوکوں میں ڈیڑھ لاکھ ملین خوراک کے پیکٹ تقسیم کرتا ہے۔مفت خوراک بینکوں سے بغیر قیمت کھانا کھانے والے برطانوی مساکین کی تعداد ہر سال کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ایسے فوڈ بینکوں میں آپ ان رضا کاروں کو دن رات کام کرتے دیکھ سکتے ہیں جو ان بھوکوں کو کھانا کھلانے کا کام بغیر کسی لالچ کے کررہے ہیں لیکن ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فری فوڈ بینکوں کا خیال سب سے پہلے اشتراکی روس کو ہی آیا تھا جہاں غریب ایک ٹماٹر کے لئے ترستا تھا اور سیاسی اشرافیہ اپنے محلوں میں ووڈکا کے جام لنڈھایا کرتی تھی۔تب ہماری طرف کے سرخ دانشورو ں کو سب کچھ ہرا ہرا دکھائی دیتا تھا۔جیسے آج قبلہ بدل کے یورپ کی فلاحی ریاستوں کی سمت قبلہ ریز ہونے والوں کو بھوکوں کی یہ قطاریں نظر نہیں آتیں، آتی بھی ہیں تو کوئی ان حکومتوں پہ بھیک اور بخشش کی بھپتی نہیں کستا۔ عمران خان نے لنگر خانہ کیا کھولا، اعتراضات کا طومار باند ھ دیا گیا۔ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ جس کے تعاون سے ملک بھر میں ایک سو بارہ ماڈل لنگر خانے کھولے جائیں گے، میرے لئے کوئی نیا نام نہیں ہے۔میں نے ان کا لنگر خانہ دیکھا ہے جہاں مستحقین کو نہایت احترام اور عزت کے ساتھ بے حد اعلی طعام دن میں تین بار کھلایا جاتا ہے۔ ریاست نے اگر ان کے سر پہ ہاتھ رکھ دیا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے ۔