گزشتہ دنوں ایک درویش مِیری خان جمالی کے بارے میں میرا کالم روزنامہ 92نیوز میں شائع ہوا، مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ اس کالم سے اتنی پذیرائی ملے گی ، سب سے پہلے فیروزہ سے بزرگ دوست الحاج انور شیر خان لودھی سابق وائس چیئرمین کا فون آیا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے اس کالم کو دو بار پڑھا ہے اور اشکبار گی کی کیفیت میں فون کر رہا ہوں ، میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے کسی مخدوم ، وڈیرے ، جاگیردار اور تمندار کی بجائے ایک ایسے شخص کے بارے میں کالم لکھا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ، اور اس کی غربت کی وجہ سے اس کا سیدھا نام پکارنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے، آپ نے کالم لکھ کر امیر بخش خان جمالی جسے دنیا ’’مِیری ‘‘ کہتی تھی کو امر کر دیا ہے۔ الحاج انور شیر خان لودھی نے بتایا کہ میرے علاقے فیروزہ میں ایسے دو غریب کردار تھے جن میں ایک ’’شادا‘‘ تھا جو غربت اور حالات کی ستم ظریفی کے باعث خانیوال سے فیروزہ میں مقیم ہو گیا وہ کچھ نشہ بھی کرتا تھا سب اس سے نفرت کرتے تھے مگر میں اُس سے ہمیشہ پیار سے پیش آتا اور حسب توفیق خدمت بھی کرتا رہتا، وہ فوت ہو گیا تو فیروزہ میں اور خانیوال میں بہت بڑا جنازہ ہوا تو وہاں جا کرپتہ چلا کہ اس کا نام چوہدری محمد ارشاد تھا اور وہ ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، اسی طرح فیروزہ میں ایک ’’ممی‘‘ نام کا بے حال شخص رہتا تھا اس کی کیفیت بھی ’’شادا‘‘ جیسی تھی وہ بھی جب فوت ہوا تو اس کا بھی بڑا جنازہ ہوا، وفات کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اُس کا نام محمد دین تھا، تو اس طرح کے کردار ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں ، ایسے کرداروں کو اجاگر کر کے آپ نے نیکی کا کام کیا ہے۔ طاہر منیر دھریجہ نے فیس بک پر میرے کالم کے نیچے لکھا ہے کہ وہ شخص جسے ہم مِیری ، مِیری کہہ کر پکارتے تھے وہ تو بڑا آدمی ہے، کالم میں خدا بخش گوڑہ کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ہمارے بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ بھی بہت اچھا انسان تھا چونکہ میری عمر اتنی زیادہ نہیں ، ہم خدا بخش کو تو نہیں دیکھ سکے لیکن اُس سے محبت کرنے والے مِیری خان کو دیکھا ہے اور سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اُس کی ایک دو اور باتیں بھی ہیں کہ وہ پھاٹک مین کے طور پر بھی جانا جاتا تھا، ریلوے ٹرین بھی اُس کی کمزور ی تھی ، وہ دھریجہ پھاٹک پر اکثر موجود رہتا اور وہ شالیمار ایکسپریس ٹرین کا شیدائی تھا ، جو بھی ٹرین جا رہی ہوتی وہ کہتا تھا کہ شالیمار جا رہی ہے، وہ دھریجہ پھاٹک پر بلا معاوضہ ڈیوٹی انجام دیتا تھا ، اپنے منہ سے نقارہ کی آواز بھی نکالتا تھا اور لوگ اُسے فرمائشیں کرتے تھے۔ طاہر منیردھریجہ کے ساتھ ساتھ معروف سرائیکی دانشور و سینئر صحافی ارشادامین ،احسان اعوان، ریاض دھریجہ ، حبیب الرحمن پہوڑ، بلال بزمی ، کوئٹہ سے سلیم فریدی سرائیکی ، پونم سرائیکستان کے صدر جی آر گورمانی ، محمد شاہ نواز سمیت سینکڑوں لوگوں نے کالم کو بہت سراہا اور اس سلسلے میں پروفیسر نذیر احمد بزمی کا ایک اہم خط ای میل کے ذریعے موصول ہوا جس میں میری خان اور ان کے خاندان کی علالت اور مالی مشکلات کا ذکر ہے اس درخواست کے ساتھ من و عن پیش کر رہا ہوں کہ حکومت کے ساتھ صاحب ثروت افراد کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ محترم سئیں ظہور دھریجہ صاحب! میں آپ کے کالموں کا اس وقت سے شیدائی ہوں جب سے آپ نے لکھنا شروع کیا۔آپ کی اپنی دھرتی مٹی اور ماں بولی سے محبت ضرب المثل ہے اور آپ میرے جیسے سینکڑوں نوجوانوں کے ہیرو ہیں۔ آپ کے کالموں میں قومی مسائل کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی بات بھی ہوتی ہے جو یقینا قابل ستائش ہے۔ 18جولائی کے روزنامہ 92نیوز میں آپ کا کالم ’’وہ جسے ہم کملا، بھولا، دیوانہ کہتے تھے!‘‘ پڑھا جس میں ہمارے علاقے کے ایک کردار امیربخش المعروف میری خان کے بارے میں چند یادیں تازہ کی گئی ہیں۔آپ نے بڑے عمدہ طریقے سے ہمارے وسیبی کردار کو زندہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں چند باتیںمیں بھی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا امید ہے کہ یہ قارئین کے لئے مفید ثابت ہوں گی۔ میری خان کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے اس کے والد شروع میں ریلوے میں ملازم تھے مگر بیماری کی وجہ سے نوکری جاری نہ رکھ سکے اور محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے رہے۔ ان کے چار بیٹے اجمل خان، میری خان، رفیق احمد اور رشید احمد جبکہ ایک بیٹی تھی۔ دو بیٹے اجمل خان اور میری خان فوت ہوچکے ہیں جبکہ باقی دو بقید حیات ہیں۔ میری خان کے خاندان میں آنکھوں کی موروثی بیماری پائی جاتی ہے سوائے میری خان کے سب کی نظر دن کے وقت کمزور ہوتی ہے اورشام ہوتے ہی بالکل ختم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے میری خان کے بھائی دوسروں کے محتاج ہیں اور انتہائی غربت اور کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔نہ ہی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والی حکومتوں نے ان کی مدد کی اور نہ ہی تبدیلی سرکار نے۔ میری خان کے بھائی رشید احمد نے بتایا کہ اب ہم دو بھائی زندہ ہیں بڑا بھائی رفیق احمد محتاج ہے اس کی نظر بالکل ختم ہوگئی ہے میں سکول میں چپڑاسی کی نوکری کرتا ہوں اور اس سے ملنے والی معمولی رقم سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہا ہوں ۔ میری والدہ اور بیوی یرقان کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے چل بسیں ، میرے اور میرے بھائی کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مگر ہمیں آج تک سرکار کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملی، نہ ہی ہمارا آج تک بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ بنا ہے اور نہ ہمیں کوئی امداد ملی ہے۔ مقامی نمائندوں کو کئی مرتبہ کہا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ پیسے دو ، کئی مرتبہ پیسے بھی دئیے مگر کارڈ اب تک نہیں بنا۔ میرا ایک ہی کمرہ ہے اس کی چھت گرنے والی ہے علاقے کے زمیندار تین سال سے لارا لگائے ہوئے ہیں کہ تمہیں اینٹیں وغیرہ لے کر دیتے ہیں مگر میں چکر لگا لگا کر تھک گیا ہوں کسی نے ایک پیسہ امداد نہیں کی۔ اسی طرح چند فرلانگ کے فاصلے پر ہمارے ایم این اے شیخ فیاض الدین کی کاٹن فیکٹری ہے، شیخ صاحب ارب پتی ہیں مگر غریبوں کو دینے کے لئے ان کے پاس ایک پیسہ نہیں، کبھی بھی علاقے کے لوگوں میں انہوں نے زکوۃ تک نہیں تقسیم کی۔ غریبوں کا کوئی نہیں ہے۔ روٹی کپڑا مکان کے نعرے والی حکومت ہو یا تبدیلی سرکار سب کا ایک ہی مشن ہے کہ سرمایہ داروں کے حقوق کا تحفظ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا فوڈ سپورٹ پروگرام کی چھان بین کی جائے تو اس میں آدھے سے زیادہ غیر مستحق لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں غربت انتہا درجے کی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ وسیب میں روزگار نہیں جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوان کراچی اور لاہور میں جاکر مزدوریاں کرتے ہیں۔ ظہور دھریجہ صاحب آپ حقیقی معنوں میں اپنے وسیب کے حقوق کی بات کرکے جہاد کررہے ہیں ، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سرخرو کرے۔ آمین، فقط والسلام ، نذیر احمد بزمی سبجیکٹ سپیشلسٹ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کوٹ سمابہ