مشرف کا دور تھا ملک کے طول وعرض میں خود کش بم دھماکے تواتر سے ہو رہے تھے ملک بدامنی کی زرد آکاس بیل میں جکڑا ہوا تھا۔ جائے وقوعہ پر خودکش حملہ آور کے بچے کھچے اعضاء یا اس کے استعمال کی کوئی چیز بھی۔ملتی تو اسے مزید تحقیقات کے لیے اکھٹا کرکے CEMB ( سینٹر آف ایکسی لینس مالیکیولر بیالوجی کا مخفف ہے )بھیج دیا جاتا کرائم کی جدید تحقیقات میں یہ مرحلہ انتہائی اہم نوعیت کا تھا۔ یہ بالکل ایک نئی ٹیکنالوجی تھی اور اس وقت پاکستان میں صرف ایک ہی فارنزک لیب تھی جو سینٹر آف ایکسیلنس مولیکیولر بیالوجی میں کام کر رہی تھی۔ اسی لیے مجھے سنڈے میگزین کے لیے ایک فیچر کرنے کی اسائنمنٹ ملی ۔ میگزین کی میٹنگ گیارہ بجے ہوتی تھی اور اسی میٹنگ کے دوران پتہ چلا کہ لاہور میں دو حساس مقامات پر خود کش بم دھماکے ہوئے اس روز مجھے انٹرویو کے لیے CEMB جانا تھا ہوئے۔یہ مالیکیولر بیالوجی کا سٹیٹ آف دی آرٹ ریسرچ کا ادارہ ہے جو پنجاب یونیورسٹی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ایک خود مختار ادارہ تھا۔شہر بھر میں سراسیمگی پھیل گئی سڑکوں پر ٹریفک میں یکدم۔سے کمی ہونے لگی ایسے میں ایک ویرانی اور عدم تحفظ کا احساس دل سے لپٹ گیا۔ ہر شخص اسی حادثے پر گفتگو کرتا ہوا دکھائی دیتا، جب ہم ٹھوکر نیاز بیگ کینال روڈ پر واقع اس سینٹر میں پہنچے تو وہاں ایک سکون اور مکمل خامو شی کا ماحول تھا۔مالیکیولر بیالوجی کے سائنسدان کسی عبادت کی سی خاموشی اور ریاضت میں گم مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں منہمک تھے۔ کسی کو شہر۔میں ہونے والے تازہ ترین خود کش حملے کی خبر نہیں تھی۔اس شاندار ادارے کے چیئرمین شیخ ریاض الدین تھے۔ میں نے ان سے اپنی اسی حیرانی کا تذکرہ کیا ، تو وہ کہنے لگے ہم اپنے ادارے کو نیوز پروف رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کام تحقیق اور ریسرچ کا ہے، اگر ہمارا ذہن یکسونہیں ہوگا تو ہم اپنے کام سے انصاف نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ہمیں یہ بتا کر اور بھی حیران کر دیا کہ انہیں اس سانحے کی خبر بھی ہم سے ہی ملی تھی کیونکہ اس پورے سینٹر میں ایک ٹی وی سیٹ بھی نہیں تھا، یوں باہر سے آنے والی خبروں کے تمام راستے مسدود تھے۔ میرے لیے یہ حیران کن خبر تھی اور میں بالکل دو انتہاؤں پر کھڑی ہوئی تھی، ایک طرف شہر بکھراؤ اور ایک شور تھا ،عدم تحفظ تھا اور دوسری طرف CEMB کے سائنسدان تھے جو سر پھینک کے بس اپنی تحقیق میں مصروف تھے اور یہ ڈاکٹر ریاض الدین کا یہ کارنامہ تھا۔ اس دور میں ہمیں چیئرمین ڈاکٹر ریاض الدین نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس سی کے علاج کے لئے استعمال ہونے والے انٹر فرون انجیکشن ہم نے یہاں نہایت کم قیمت میں بنائے ہیں۔ 2005 میں میں اس انجکشن کی قیمت کم از کم 13, 14 ہزار تھی جبکہ اس لیبارٹری میں تیار ہونے والا انٹرفرون صرف 70 روپے میں دستیاب ہوتا۔ لیکن اس سستے انٹرفیرون انجیکشن کو فارماسوٹیکل مافیا نے مارکیٹ میں آنے نہیں دیا۔ایسے کامیاب منتظم اور سائنس دان کو مافیاز نے راہ سے یوں ہٹایا کہ ان پر مقدمے بنائے گئے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا۔ شیخ ریاض الدین کی سربراہی میں اسی سینٹر آف ایکسیلینس میں پاکستان کی اسٹیٹ آف دی آرٹ فرانزک سائنس لیبارٹری بھی قائم ہوئی ، انہی دنوں بلوچستان میں ایک زیادتی کا ایک کیس ہوا تھا، جس کے مرکزی کردار ایک لیڈی ڈاکٹر اور ایک سرکاری آفیسر تھے اور اس کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے بلوچستان سے لاہور لائے گئے۔ اسوقت یہ اتنا ہائی پروفائل اور حساس واقعہ تھا کہ اس کا ذکر بھی میڈیا میں بڑی احتیاط سے کیا جاتا،نائن الیون کے بعد پاکستان اپنے جغرافیائی سی پوزیشن کی وجہ سے سخت مشکل حالات سے دوچار رہا، پاکستان بھر میں خودکش حملے ہوتے رہے ہیں۔ دہشت گردی کی ہر طرح سے روک تھام کے اقدامات کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ تمام صوبوں میں فرانزک لیبارٹریز قائم کی جاتیں۔ جدید ترقی یافتہ دنیا میں چھوٹے سے چھوٹے کرائم میں مجرم تک پہنچنے کے لئے فرانزک ٹیسٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اسلام آباد ،پشاور اور کراچی سندھ میں بھی فرانزک لیبارٹریز بنائی گئیں لیکن یہ ہائی کوالٹی کے حساس نوعیت کے فرانزک ٹیسٹ سر انجام دینے سے قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی تمام حساس فرانزک ٹیسٹ لاہور سینٹر آف ایکسیلنس کی فرانزک سائنس لیبارٹری میں بھیجے جاتے ہیں۔پشاور میں ہونے والے افسوس ناک سانحے میں سو سے زائد لوگ دنیا سے چلے گئے۔کسی بھی ایسے سانحے میں چونکہ بد بخت خود کش حملہ آور کی شناخت صرف اس کے بچے کھچے حصوں فرانزک ٹیسٹ ہی سے ہو سکتی ہے۔کس لئے فرانزک ٹیسٹ لیبارٹری کا قیام بہت ضروری ہے۔زینب زیادتی کیس میں مجرم عمران کا فرانزک ٹیسٹ بہت بعد میں ہوا تھا، اس سے پہلے زینب کے واقعے سے پہلے اسی علاقے کے ایک بچی ایمان کے ساتھ بھی یہ زیادتی اور قتل کا واقعہ ہوا تھا اگر اسی وقت فرانزک ٹیسٹ ہو جاتا تو عمران کو گرفتار کیا جا سکتا تھا اور شاید زینب کے سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ پولیس لائنز مسجد میں ہونے والا سانحہ سو سے زائد جانوں کے نا قابل تلافی نقصان کے ساتھ بہت بڑا سانحہ ہے، ہمارا یہی پشاور 2014 میں اے پی ایس جیسے دل چیر کر رکھ دینے والے سانحے کا شکار ہوا تھا پشاور کی جغرافیائی پوزیشن کے حساب سے بدقسمتی سے یہ شہر یہ صوبہ دہشت گردی کا نشانہ بار بار بن رہا ہے۔اس سانحے کی تحقیقات کے لیے نمونے فرانزک سائنس لیبارٹری CEMBپنجاب میں بھیجے جا رہے ہیں۔سوال یہ ہے تحریک انصاف نے کے پی کے میں اپنے 10 سالہ دور حکومت میں بنیادی نوعیت کا یہ ایک کام بھی نہ کیا تو کیا کیا؟