مولانا دھرنا کیوں دے رہے ہیں؟ اس سوال کا بڑا معصوم سا جواب ہے، خان کے استعفے کے لیے۔ ہمارے ہاں سازشی کہانیوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ یہاں تک کہ میاں نواز شریف جینوئن بیمار ہوجائیں تو سوشل میڈیا ججوں اور ڈاکٹروں کو کوسنے لگتا ہے۔ ہم ہر واقعے میں … ہر حرکت میں … یہاں تک کہ بیماری میں بھی غیبی قوت اور اشارے تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت خوانچہ فروش سے سوشل میڈیا تک اور ڈھابوں سے فائیو سٹارز لابیوں تک مولانا کے الٹی میٹم کے حسن اور حسن بیاں کے چرچے ہیں۔ مکالموں کی ہیئت کچھ یوں ہے۔ کیا مولانا اکیلے اتنا کچھ کررہے ہیں یا؟ میاں شہباز کبھی شامل نہ ہوتے اگر بڑے میاں صاحب کا پریشر نہ ہوتا۔ لگتا ہے دونوں اب ایک پیج پر نہیں رہے۔ مولانا نے تو دو دن کا الٹی میٹم دے دیا مگر بلاول اور چھوٹے میاں نے صرف حکوت جانے کی بات کی ہے … ٹائم لائن نہیں دی۔ ارے صاحب! یہ غیر آئینی طریقہ ہے حکومت کو نکالنے کا۔ جواب: ارے محترم یہ ایجاد بھی تو خان نے خود ہی کیا ہے ناں 2014ء میں۔ سمجھ نہیں آتی وہ مولانا جو کبھی گیلے پر پائوں ہی نہیں رکھتے وہ اتنی دور سے چل کر اسلام آباد کیوں آگئے؟ بھائی ایمپائر تو حکومت کے ساتھ ہیں تو پھر مولانا کس کی انگلی کے اشارے پر تشریف لے آئے؟ تمہیں 2014ء کا دھرنا یاد ہے؟ ہاں! ایمپائر کس کے ساتھ تھا؟ حکومت کے۔ تو پھر بھی دھرنا کیوں ہوگیا؟ کچھ دیگر ایمپائر ہوں گے؟ خود سوچو مجھے مولانا کے دھرنے کے سکرین پر لانگ شاٹ دیکھنے دو۔ بلاول کی مسکراہٹ اور محمود خان اچکزئی کے چہرے کی سنجیدگی کا جائزہ لینے دو۔ میاں شہباز کی باڈی لینگوئج کا زائچہ نکالنے دو۔ اوکے! کچھ صحافی اور سرکاری افسران بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ حکومت کے دو وزراء اور دو منتخب نمائندے بھی ہیں۔ سب کے چہروں پر سوال ہی سوال ہیں۔ کچھ چہروں پر کنفیوژن صاف پڑھا جاسکتا ہے۔ ایک منسٹر: یہ مولانا کیا چاہتے ہیں؟ جرنلسٹ: (مسکراتے ہوئے) آپ کی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے آئے ہیں۔ آپ نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مولانا کو پتہ چل گیا ہے کہ آپ کے پلے کچھ بھی نہیں عوام کو دینے کے لیے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک آپ کو قید کرچکا ہے۔ عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں آپ کے پاس۔ عام آدمی آپ سے بیگانہ ہوچکا ہے۔ ایک سرکاری افسر: مگر مدرسوں کے طلباء اور اساتذہ… کچھ مذہبی لیڈرز کیا اس طرح کے ہجوم سے پاکستان ایک بنیاد پرست ریاست نظر نہیں آرہا؟ ایک ملک کا مرکزی دارالحکومت ایک خاص حلیے کے ٹین ایجرز، چھوٹے بڑے مولاناز۔ حکومتی ایم این اے : ہم نے تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ ایسی ایسی سفارش کرائی کہ بس۔ ہمیں کیا پتہ تھا فلم ہی فلاپ ہوجائے گی۔ کام ہمارا ہوتا کوئی نہیں۔ مرکز میں خان کے گرد جو ہیں وہ بھی لفٹ نہیں کراتے اور پنجاب میں کام کروانے کی کیمسٹری ہی اور ہے۔ نہ پہلے دیکھی نہ سنی۔ اس سے تو بہتر ہوتا ہم قاف کا ٹکٹ لے لیتے۔ عزت سے ٹکٹ بھی مل جاتا اور تردد کے بغیر ہمارے کام بھی ہوجاتے۔ دوسرا صحافی: اب سیاست اتنی سیدھی نہیں رہی۔ ہر نئے الیکشن کے بعد نئے پاور بروکرز سامنے آتے ہیں۔ اس دفعہ بھی کچھ نئے ہی تجربات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ٹرانسفر … پوسٹنگ کی الجبرا جیومیٹری سابقہ حکومتوں سے مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔ بیوروکریٹ: اسی لیے تو میری دو مہینے میں یہ تیسری پوسٹنگ ہے۔ اینکر: بھئی آپ مانیں نہ مانیںمجھے تو یہ ایک گہری سازش لگتی ہے۔ پہلا صحافی: ڈیئر! آپ کو تو ہر بات میں ہی سازش کی بو آتی ہے۔ آصف زرداری شدید بیمار ہیں۔ میاں نواز شریف کی حالت اچھی نہیں۔ مگر آپ کو اس میں بھی گرینڈ سازش اور این آر او نظر آتا ہے۔ خدا را کسی واقعے کو اس کی فیس ویلیو پر بھی دیکھ لیا کریں۔ منسٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) بھائی ہم تو شروع ہی سے اس ملک کو ڈیپ سٹیٹ سمجھتے ہیں۔ ہیں کواکب کچھ اور … نظر آتے ہیں کچھ۔ مگر اس وقت مجھے یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ یہ مولانا اتنی بڑی بڑی بڑھکیں کیسے مار سکتے ہیں … ووٹ بینک ان کا زیادہ نہیں۔ پنجاب میں ان کی سیاسی ساکھ بس ایسی سی ہی ہے۔ انڈیا اور امریکہ پاکستان کی کمزوریوں پر ہر وقت کھیلنے کو تیار رہتے ہیں۔ بیرونی قوتوں سے کھیلنے کے لیے اندرونی استحکام از حد ضروری ہے۔ پہلا صحافی: یہ بات آپ کو 2014ء میں بھی سوچنی چاہیے تھی۔ اوہ! آپ تو اس وقت پارٹی میں ہی نہیں تھے۔ مگر یہ کہنا پڑے گا کہ مولانا سندھ … سرحد اور بلوچستان میں خاصا اثر رکھتے ہیں۔ رہا پنجاب تو آپ نے پنجاب میں اپنی گورننس (گڈ گورننس) کے ذریعے ایک سنہری موقع کھو دیا ہے۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ درست تھا یا غلط … اپنی ثابت قدمی سے اور آپ کی بیڈ گورننس سے انہوں نے آپ کو دفاعی سیاست پر مجبور کردیا ہے۔ منسٹر صاحب: مگر ہمارے وزیر اعظم کرپشن کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ کسی کو کوئی این آر او نہیں دیں گے۔ دوسرا صحافی: آپ کے کسی بھی بیان اور بیانیے کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ منسٹر: وہ کیوں؟ صحافی: سب کو پتہ ہے کہ آپ بساط پر ہی نہیں ہیں اور …منسٹر: آپ رک کیوں گئے؟ اینکر: آپ یوٹرن مارتے دیر نہیں لگاتے۔ بیوروکریٹ: مجھے ٹینشن ہورہی ہے۔ اگر اس سارے دھرنے میں پنجاب میں سیاسی تبدیلی آگئی تو مجھے پوسٹنگ کے لیے پھر دربدر ہونا پڑے گا۔ ایم این اے: ہوسکتا ہے ہمارے لیے کچھ آسانیاں پیدا ہوجائیں۔ صحافی: اور میں سوچ رہا ہوں … عوام کا کیا حال ہوگا جنہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایک اور جھٹکا دینے لگے ہیں، بجلی اور گیس کا۔ پہلا صحافی: اس ملک کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر کون ہے؟اینکر: (اپنی نشست سے اُٹھتے ہوئے) مجھے ابھی اپنے پروگرام کی تیاری کرنی ہے۔ جو تم پوچھ رہے ہو یہ اوپن سیکرٹ ہے۔