ایک بار پھر پاکستان سیاسی بحران کی زد میں ہے ۔ اس سال اپریل میں جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ختم ہوئی تب سے عمران خان نے اپنی احتجاجی سیاست سے ملک میں ایک غیر یقینی کیفیت اور سیاسی اضطراب پیدا کر رکھا ہے۔ان کی جانب سے اختیار کردہ نت نئے بیانیوں سے ملک مسلسل سیاسی بحران میں ہے ۔پہلے امریکی سائفراور غیر ملکی سازش کا بیانیہ،پھر امپورٹڈ حکومت کی طعنہ زنی،اس کے بعد فوج کے سپہ سالار کی تعیناتی میں میرٹ کا شور،اور اب قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں سے اراکین کے مستعفی ہونے کا اعلان۔راولپنڈی میں لانگ مارچ کے اختتام پر عمران خاں کے اس اعلان سے ملک میں پہلے سے موجود غیر یقینی سیاسی کیفیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔اسمبلیوں سے استعفی دیئے جائیں یا پھر اسمبلیاں ہی تحلیل کر دی جائیں۔مبہم اعلانات اور بیانات سے کاروباری و تجارتی حلقے حیران و پریشان ہیں۔ حکومتی اتحاد اور عمران خاں ہر دو سیاسی فریق محاذ آرائی ختم کرنے کے بجائے اسے طول دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اپنی اپنی چالیں سوچ رہے ہیں ملک کس مشکل میں ہے اس کے شہریوں پر کیا گزر رہی ہے معیشت کس حال میں ہے ۔ مہنگائی نے جینا مشکل تر کردیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک کی معیشت رواں رکھنے کے لئے قرضوں کا حصول مزید دشوار ہوتا جا رہا ہے ۔اقوام عالم میں قومی اور ریاستی تشخص ہر اعتبار سے نچلے درجوں پر پہنچ گیا ہے۔ مگر سیاسی قیادت کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔سیاست دانوں کے ان ہی رویوں سے پاکستان کے لئے ایک غیر ذمہ دار ریاست کا تاثر ابھرتا ہے۔اور در پیش داخلی بحران کسی طور ختم نہیںہو پاتے۔ پاکستان میں سیاست دانوں میں بحرانوں سے نمٹنے کی اہلیت میں کمی کے ساتھ ساتھ ان پر قابو پانے کے ارادے کی بھی کمی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 75سال کے بعد بھی پاکستان کا ریاستی سفر سیاسی عدم استحکام سے دو چار ہے، یہ درست ہے کہ پاکستان کا قیام جن حالات میں ہوا اور ابتدائی طور پر اسے جن مسائل کا سامنا رہا، وہ غیر معمولی تھے۔ تاہم یہ ابتدائی دنوں کی بات تھی۔ ریاستوں کو اس طرح کے حالات کا سامنا رہتا ہے اور وہ ان پر قابو پانے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔جاپان، چین اور ملائشیا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جاپان نے تو دوسری جنگ عظیم کے بعد ایٹم بم کی تباہ کاریاں سہنے کے بعد بچے کچھے ملبے سے اپنی تعمیر نو کی اور آج ایک مستحکم معاشی قوت کے طور پر بین الاقوامی سطح پر خود کو منوانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔چین نے1949 ء میں انقلاب کی کامیابی کے بعد اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور آج وہ دنیا کی عظیم معاشی اور سیاسی قوت کے طور پر اقوام عالم میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ملا ئشیا جس نے 1957ء میں آزادی کے بعد اپنا سیاسی سفر شروع کیا، آج معاشی استحکام کی جس منزل پر ہے ، وہ قابل رشک ہے ۔یہ سب کچھ ان ممالک کی سیاسی قیادت کی مسائل و بحرانوں سے نمٹنے کی غیر معمولی اہلیت کے باعث ہی ممکن ہو سکا۔ ریاستیں بحران کا شکار ہوتی ہیں،ان کی سیاسی قیادتیں اپنی فہم و فراست اور بحرانوں سے نمٹنے کی اہلیت کے باعث ان کا مقابلہ کرتی ہیں اور ان سے نکلنے میں کامیاب ہو تی ہیں یہی اہلیت اچھی حکمرانی کی بنیاد بنتی ہے،جو کسی بھی ریاست کی بقا اور استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔ اچھی حکمرانی کا تصور ریاست کے اداروں کے باہم ارتباط اور آئینی طور پر طے شدہ فرائض کی انجام دہی پر ہے۔ جس کا بنیادی مقصد ریاست کے عوام کی فلاح، تحفظ اور خوشحالی کے لئے فیصلہ سازی اور ان کے موئثر اطلاق کی حکمت عملی اختیار کرناہے۔ریاست کے تمام اداروں کے ( جن میں حکومت ،انتظامیہ، عدلیہ اور دفاعی ادارے شامل ہیں )تفویضی فرائض کا محور ریاست کے عوام ہو تے ہیں۔ان ریاستی اداروں میں حکومت کو ایک تخصیصی امتیاز حاصل ہے ۔ کیونکہ:وہ عوام کی منتخب کردہ ہو تی ہے اور ان کے مفادات کے تحفظ کی ترجمان اور نگہبان بن کر اختیارات حاصل کرتی ہے۔ مزید یہ کہ حکومت ہی دیگر تمام اداروں کے درمیان باہم ربط و تحرک کو قائم کرتی ہے۔پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون سازی کے عمل کو سر انجام دیتے ہوئے اس کے نفاذ کے لئے ہدایات جاری کرتی ہے ۔یہ ہے وہ فریم ورک جس میں جدید حکومتیں اپنے اداروں کے ذریعہ اپنے فرائض کی انجام دہی کر تی ہیں ۔ بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہی دراصل سیاسی قیادت کی اصل آزمائش ہے۔ اس آزمائش کی بھٹی سے جو سلامت نکل گیا وہ کندن بن گیا وگرنہ راکھ ہو جانا،اس کا مقدر رہتا ہے۔ جب کوئی سیاسی قیادت اس بحرانی کیفیت سے ،درست اور بر وقت فیصلوں کے ذریعہ،خود کو نکالنے میں کامیاب ہو جا تی ہے،تو اس سے نہ صرف اس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ عوام میں اس کی ساکھ اور مقبولیت بھی مستحکم ہو تی ہے۔ دوسری طرف وفاق میں قائم اتحادی حکومت جو اپنی معاشی اور سیاسی کمزوریوں کے باعث عوام میں غیر مقبول ہو چکی ہے ۔ وقت سے پہلے انتخابات کے لئے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ انتخابات جلد ہوں یا بدیر اتحادی حکومت کے دورانئے میں عوام کی مشکلات میں جس شدت سے اضافہ ہوا ہے ،اس کا خمیازہ اتحاد میں شامل جماعتوں کو بحرحال اٹھانا ہی ہوگا۔پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے مستعفی ہونے کے بعد ویسے بھی موجودہ قومی اسمبلی کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت کمزور اور مجہول ہو چکی ہے ۔ سیاسی دانائی کا تقاضہ یہ ہے کہ ملک کو در پیش مشکلات کے پیش نظر بحران سے نکلنے کے لئے وفاقی اتحادی حکومت کو آئندہ سال کی پہلی ششماہی میں انتخابات کے لئے آمادہ ہو جانا چاہیئے۔جو سیاسی خسارہ اتحادی حکومت کو اکتوبر کے انتخابات میں ہونا ہے، وہ آئندہ سال اپریل یا مئی میں ہو جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ البتہ اس فیصلے سے موجودہ بحرانی کیفیت کا خاتمہ ہو سکے گا ۔اور بڑی حد تک موجودہ سیاسی کشیدگی کو بھی کم کیا جاسکے گا۔ نئی منتخب حکومت تازہ مینڈیٹ کے ساتھ مشکل اور دور رس فیصلے کر نے کی پوزیشن میں ہوگی۔