وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا گلہ ہے کہ معیشت پر سیاست بند ہونی چاہیے‘ کیا اسحاق ڈار کو ایسی گفتگو کرتے ہوئے سوچنا نہیں چاہیے؟ ایک طرف وزیر خزانہ سیاست کو معیشت سے الگ کر رہے ہیں تو دوسری طرف خود بھی سیاست میں مصروف ہیں‘ کبھی 29 نومبر کی آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کرتے رہے‘ کبھی وزیر اعظم ہاؤس میں فضل الرحمن اور آصف علی زرداری سے ملاقاتوں میں مصروف رہے‘ نواز شریف کے پیغامات انہیں اور انکے پیغامات نواز شریف کو پہنچاتے رہے۔ اسحاق ڈار کیا اس لئے ملک میں واپس آئے ہیں؟ انہوں نے معیشت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے لیکن ایک بات ماننی پڑیگی کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں حقائق کو الجھا کر اور گورکھ دھندہ بنا کر پیش کرنے میں انکا کوئی ثانی نہیں ۔اسحاق ڈار کو شاید معیشت پر سیاست ہوتی نظر آرہی ہو‘ وہ ملک کے ڈیفالٹہونے کی بار بار تردید کرتے ہیں جبکہ ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی گزشتہ روز ترک خبررساں ادارے کو انٹرویو کے دوران انکشافات کیا کہ ہمارے پاس دیوالیہ پن سے پیچھے ہٹنے کیلئے بہت کم وقت ہے‘ ہمیں عوام کو درپیش معاشی مشکلات کا ادراک ہے۔ سبسڈیز کا خاتمہ کررہے ہیں‘ کیا وزیر اعظم بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور معیشت پر سیاست کررہے ہیں؟ وطن عزیز میں اسحاق ڈار سے قبل ن لیگ کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے انکشافات پر جانے سے پہلے‘جس میں انہوں نے اسحاق ڈار کے دعوؤں کا پوسٹمارٹم کیا ہے‘ اسحاق ڈار کی اپنی گفتگو سامنے رکھتے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اسحاق ڈار کو خود بھی علم ہے کہ ملکی معیشت انتہائی ابتری کا شکار اور دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بات تو بہت آسانی سے کہہ دی کہ ملک کی معیشت پر سیاست بند ہونی چاہیے مگر دوسری طرف وہ حقائق کو جھٹلانے کا فن رکھنے کے باوجود اپنے ہی دئیے گئے بیان میں بے نقاب ہوگئے‘ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال اگست تک ملک میں معاشی طور پر استحکام آجائیگا۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان میں 21 یا 22 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ دس سے بارہ ارب ڈالرز کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بھی کم کریں‘ گویا جب ہماری معیشت اگلے سال اگست تک استحکام میں آئیگیاور اسحاق ڈار جانتے ہیں:ملکی معیشت بدترین بحران کا شکار ہے۔ اسحاق ڈار ناجانے کس دنیا میں رہتے ہیں‘ موجودہ دور میں حقائق پر غلط بیانی کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کردیا ہے۔صنعتیں بندش کا شکار ہیں‘ تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں‘ برآمد کنددگان الگ آہ و فغاں میں مصروف ہیں۔ کاشتکاروں کی بدحالی کا تو پوچھیے مت! ملک میں مہنگائی کی شرح میں بتدریج اضافہ جاری ہے۔ تازہ اعداد وشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 30.19 فیصد تک پہنچ چکی ہے‘ گردشی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے‘ مجموعی طور پر گردشی قرضہ جات 25 کھرب 95 ارب روپے تک پہنچ گئے‘ موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے پہلے چار ماہ میں گردشی قرض میں اوسطاً 76 ارب روپے کا اضافہ ہوا‘ گزشتہ مالی سال کے 4 ماہ یعنی مارچ تا جون کے درمیان 3 کھرب 3 ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا‘ ماہرین کے مطابق گردشی قرض میں اضافہ کی وجوہات میں بنیادی نرخ‘ ماہانہ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ‘ سہ ماہی چارجز میں اضافہ اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جنوبی پنجاب‘ اندرون سندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے میں کم وصولیاں شامل ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ حکومت کی معیشت پر کتنی توجہ ہے اور معیشت پر سیاست کون کررہا ہے؟ کیا وزارت پانی و بجلی‘ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا قبلہ درست نہیں کرسکتی؟ اور سارا بجلی چوری کا بوجھ صارفین پر منتقل کرنا درست عمل ہے؟ درحقیقت موجودہ 13 جماعتو ں کی حکومت کو معیشت کے سدھار سے کوئی سروکار نہیں ہے‘ یہ چوں چوں کا مربہ حکومت جو کرنے آیا ہے‘ان مقاصد میں عوامی مفادات کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں‘ یہ صرف ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے آئے ہیں۔ کوئی نیب قوانین میں ترامیم کے ثمرات سے مستفید ہورہا ہے‘ کوئی ای سی ایل سے نام نکلوا کر بیرون ملک جا چکا ہے‘ کوئی کسی طرح کا فائدہ اور مفادات حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ فضل الرحمن نے جس قسم کی اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کی‘انہیں ہم آئندہ مولانا تو نہیں لکھیں گے لیکن انکے طرز سیاست سے معلوم ہوتا ہے کہ مفادات کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بنا، اسے کچلنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا جائے گا۔ حالانکہ چند روز پہلے فضل الرحمن نے اپنے قریبی رشتے دار کو گورنر بلوچستان تعینات کروایا‘ بہرحال اقتدار کی ہوس کے پوجاریوں کا ناکبھی پیٹ بھرا ہے اور نا کبھی بھرے گا۔ فضل الرحمن نے صرف ایسی گفتگو نہیں کی‘ کئی مرتبہ اس طرح کی غلیظ گفتگو پی ڈی ایم اتحاد والے کرتے ہیں۔ خیر اسحاق ڈار کے دعوؤں کا پوسٹمارٹم ایک طرف معاشی و اقتصادی حالات‘ معیشت اور عوام کی زبوں حالی کررہی ہے جبکہ دوسری طرف مفتاح اسماعیل نے انہیں آئینہ دکھاتے ہوئے بے نقاب کردیا ہے۔ انہوں نے اسحاق ڈار کو بتانے کی جستجو کی ہے کہ پاکستان کا ڈیفالٹ رسک خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے۔ دسمبر میں بانڈز کی ادائیگی کے بعد بھی ڈیفالٹ کا خطرہ برقرار رہے گا۔ قرض دہندگان کو ٹھوس اقدامات کی فوری یقین دہانی کرانا ہوگی۔ حکومت نے درست قدم نہ اٹھایا تو پھر تحریک انصاف پر اسے تنقید کا حق نہیں۔ ہم اپنے کالم کا اختتام مفتاح اسماعیل کے ٹویٹ کے ان جملوں پر کرتے ہیں‘ جس میں انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مشورہ دیا "ان کی نمبر ون ترجیح یہ نہیں ہونی چاہیے کہ درآمدات کو مشکل اور برآمدات کو آسان بنایا جائے‘ قومی مفاد کو سیاسی مفاد پر ترجیح دینی چاہیے‘ آج بھی اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کے ریٹ میں بڑا فرق ہے‘ معیشت پر سیاست بند ہونی چاہیے". مفتاح اسماعیل نے قومی مفاد کو سیاسی مفاد پر ترجیح دینے کی تجویز دے کر اسحاق ڈار کو بے نقاب کردیا ہے‘ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے!!!