بھارت کے ا عصاب پر پاکستان جس طرح سے سوار ہے اسکے مظاہر آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔اب چین کی طرف سے پاکستان کوکورونا ویکسین کے تجرباتی مراحل میں سب سے پہلے ملک کے طور پر شامل کرنے کا سن کر بھارت میں ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی ہے اور پاکستان کے حوالے سے کسی بھی بے سر و پا بات کو لے کر بھارتی میڈیا پاگل پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس خبر کوسن کر رد عمل توقعات کے مطابق ہی ہے۔ایک ٹی وی اینکر لہک لہک کر پاکستانیوں کے غم میں گھلی جا رہی تھیں کہ اب پاکستانی عوام پر اس ویکسین کے تجربے ہونگے اور چین نے سی پیک کی صورت میں جو سرمایہ کاری کی تھی وہ اس طرح سے پاکستانیوں کو تجربے کی بھینٹ چڑھا کر وصول کی جائے گی۔ایک طرف تو انہیں پاکستانیوں سے چڑ ہے اور دوسری طرف اچانک ہمارے لئے اتنی محبت کا جاگ جانا کہ ہم کسی تجربے کا نشانہ بننے جا رہے ہیں۔ در اصل یہ اسی دشمنی کا شاخسانہ ہے جو بھارت کی قیادت اور انکے صحافتی گماشتے عرصہ دراز سے ہمارے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیںپتہ کہ ہر اس ملک میں جہاںتجرباتی ویکسین تیار ہوتی ہے وہاں لوگوں کو رضا کارانہ طور پر اسکی آزمائش کیلئے کہا جاتا ہے، جو لوگ اس کیلئے راضی ہوتے ہیں ان کو انتہائی محتاط طریقے سے یہ ویکسین دی جاتی ہے اور مسلسل زیر نگرانی میںرکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں انہیں بر وقت طبی امداد دی جا سکے۔اسی طرح سے چین نے بھی پہلے دو مراحل میں اس ویکسین کو چین کے اندر ہی موجود ان لوگوں پر آزمایا ہے جو رضاکارانہ طور پر اسکے لئے آمادہ تھے۔ تیسرے مرحلے کے آغاز کے وقت انہوں نے پاکستان کے ساتھ اس ویکسین کے مشترکہ ٹرائل کا عندیہ دیا ہے اور اسکے لئے انہوں نے ایک خط کے ذریعے پیشکش کی ہے۔ اسکے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں لیکن بھارتی میڈیا بے چین ہے کہ کسی طرح اس کو پاک چین دوستی میں عوامی سطح پر دراڑ ڈالنے کے لئے استعمال کرے جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔اور اس قسم کا پراپیگنڈہ پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ ایک مستقل سلسلہ ہے۔ کچھ روز قبل انکے 15کور کے کمانڈر نے بہت دھڑلے سے انکشاف کیا کہ پاکستان نے کشمیر کے راستے کوروناکے شکار لوگوں کو مقبوضہ کشمیرمیں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ وہ خود تو شاید غیر سنجیدہ افسر رہے ہوں لیکن جس نشریاتی ادارے کو انہوں نے انٹر ویو دیا وہ خودکو بہت معتبر بین الاقوامی ادارہ سمجھتا ہے اور یہ درست بھی ہے لیکن اس بے پر کی کو اڑانے میں انہوں نے کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی بلکہ خوب دل کھول کر انکے اس پیغام کو دنیا بھر میں پہنچایا۔ بھارتی میڈیا تو ایسے موقع پر تلا بیٹھا ہوتا ہے انہوں نے نہ صرف بھارتی کور کمانڈر کی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا بلکہ چند ایک بھارتی چینلز نے تو نیپال کے ر استے بھی متاثرین کی در اندازی کی درفنطنی چھوڑ دی۔ ان چینلز کے مطابق پاکستان سے کچھ کورونا کے مریض تبلیغی جماعت کی آڑ میں نیپال بھیجے گئے ہیں جو بھارت داخل ہو کر یہاں پر اس وباء کو پھیلانے کا منصوبہ لے کر آئے ہیں۔بھارت کے ذمہ دار فوجی افسر اور انکے انتہائی غیر ذمہ دار میڈیا کا ایک صفحہ پر ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کس طرح انکے اعصاب پر سوار ہے۔اس سارے پراپیگنڈے پر پاکستان فوج کے ترجمان نے دولفظی بات کر کے بھارت کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو ختم کردیا ، ’’ اس سے زیادہ خود فریبی اور بے تکی بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی‘‘۔ بھارت در اصل گزشتہ اگست سے مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو اوردنیا کی اس سب سے بڑی انسانی جیل میں جاری ظلم پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اور اس میں سب سے آسان پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ ہے اس سلسلہ میں وہ کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔ خیر یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ۔بھارت کے گزشتہ سال انتخابات کے دوران جس طرح سے بھارت نے پلوامہ کی آڑ میں کارروائی ڈالی تھی۔پلوامہ شاید آخری واقعہ تھا جسکی بندوق ایک بار پھر بھارت پاکستان کے کندھے پر رکھ کر چلانے کی ناکام کوشش کی۔ اس واقعے کے بعد جس قسم کا واویلا بھارت نے مچایا وہ نیا نہیں تھا لیکن جو بین ا لاقوامی رد عمل آیا ہے وہ با لکل نیاتھا۔ اس سے پہلے بھلے ممبئی حملہ ہو، پٹھانکوٹ ہو یا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا واقعہ، امریکہ سے لے کر بھوٹان تک پاکستان پر الزام تراشی میں بھارت کے ہمنوا ہوتے تھے۔ پلوامہ کی بار ایسا نہیں ہوا۔ بھارت اب جتنا بھی زور لگا لے کشمیر کے مسئلے پر دنیا کو بیوقوف نہیں بنا سکتا کیونکہ جس قدر ظلم مقبوضہ کشمیر کے باسیوں نے سہنا تھا سہہ لیا۔ اب انہیں بھی خیر کی کوئی امید نہیںرہی اس لئے وہ اس انتہا کی طرف چل پڑے ہیں جو بالآخر بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار رہنے کی صورت میں اس کے لئے صرف اور صرف تباہی ہی لائے گی۔ بھارتی سیکولر ریاست کا مکروہ چہرہ مزید بے نقاب ہوا ہے۔یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ بھارت میں اس قسم کے سٹنٹ کئے جا رہے ہوں ۔اسکی ایک پوری تاریخ ہے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت میں انتخابات کے دوران پاکستان دشمنی ایک بہت بنیادی ایشو کے طور پر اٹھایا جاتا ہے اور ہندو انتہا پسندوں کا ووٹ کیش کیا جاتا ہے۔اسکے نتیجے میں بھارت کے اندر یہ ایک مستقل خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ جب بھی چنائو کا موقع ہو کسی بھی اقلیت کو مشق ستم بنائو اور انتہا پسند ہندئووں کے ووٹ کیش کرائو۔لیکن اب مزید خطرناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ رو بہ عمل لانے کے لئے اب بھارت کی سرکار مودی کی قیادت میں کسی موقع یا عذر کی آڑ نہیں لے رہی یا انتخابات کے انتظار میں نہیں ہے بلکہ ننگی جارحیت جس کا شکار پہلے صرف کشمیری تھے اب پورے ملک کی اقلیتیں ہیں جس میں مسلمان خصوصاً اس سارے ریاستی ظلم و جبر کا نشانہ ہیں۔ہماری ویکسین سے مرنے کی فکر نہ کریں جناب، آپ جس نفرت کی آگ کا شکار ہو چکے ہیں اسکی فکر کریں کیونکہ اسکو لگانے والے بھی اسکی زد میں ہیں۔