تختِ برطانیہ کے مسند نشین چارلس ان دنوں شہزادے تھے، پرنس چارلس کہلاتے تھے، اپنی نئی نویلی دوسری بیوی کمیلا پارکر کے ساتھ لاہور تشریف لائے تو بحیثیت ڈائریکٹر جنرل محکمۂ آثارِ قدیمہ پنجاب، ان دونوں کو بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ لاہور کی سیر کرانا اور انہیں تاریخ کے جھروکوں میں لے جانا میری ذمہ داری تھی۔ یہ گیارہ ستمبر کے بعد کی دنیا تھی، جس میں مسلمان ہی شدت پسندی اور دہشت گردی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ برصغیر کی تاریخ کا تذکرہ ہوا تو بات محمود غزنوی تک جا نکلی اور ان دنوں پرنس چارلس نے حسن بن صباح کی مشہور تحریک ’’حشیشین‘‘ کا تازہ تازہ مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے ایک عجیب سوال کیا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ دہشت گردی خصوصاً خودکش حملوں کا آغاز حسن بن صباح کے ’’الموط‘‘ قلعے کی تحریک سے ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں وہ جواب آپ کی نذر کروں تھوڑا سا حسن بن صباح کا تعارف ضروری ہے کہ جس کے کھاتے میں پوری دنیا کی دہشت گردی ڈال دی گئی کہ وہی اس کا بانی تھا۔ حسن بن صباح اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ یوں تو ایرانی تھا لیکن اس نے زمانے کے رسم و رواج کے مطابق اپنے آپ کو ایک عرب ’’الحمیری‘‘ خاندان سے منسوب کر رکھا تھا، اس لئے کہ اس کا باپ کوفہ سے قم آیا تھا جہاں اس نے اس مشہور مذہبی مرکز میں صرف اٹھارہ سال کی عمر میں ہی ریاضی، نجوم، سحر اور فقہ کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔ یہیں پر اس کی ملاقاتیں فاطمی مبلغین ناصر خسرو، حجت خراسان اور امیر حزاب سے ہوئیں۔ ان سے طویل بحثوں کے بعد وہ اسماعیلی مذہب سے متاثر ہوا اور اثنا عشریہ شیعت کو چھوڑ کر اسماعیلی ہو گیا۔ یہ ایک افراتفری کا دور تھا۔ خلیفہ تو عباسی مقتدی بااللہ تھا لیکن اقتدار سلجوقیوں کے ہاتھ میں تھا۔ ایسے میں اسے تہران کے پہاڑوں کے پاس ’’قزوین‘‘ میں رہنے کو جگہ ملی۔ اس نے درویشی کا لبادہ اوڑھا اور سادہ زندگی گزارنے لگا۔ لوگ اس کے پاس آتے اس سے فیضیاب ہوتے۔ اسے ان پہاڑوں میں ایک قلعہ بہت پسند آیا جسے ’’الموط‘‘ یعنی عقاب کا آشیانہ کہا جاتا تھا۔ جب اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھ گئی تو اس نے قلعہ کے مالک علوی کو کہا کہ وہ قلعہ سے نکل جائے کیونکہ اس قلعے میں وہ خود رہنا چاہتا ہے۔ علوی نے انکار کیا اس نے اپنے مریدوں کو حکم دیا اور انہوں نے چشمِ زدن میں علوی کو قلعے سے نکال باہر کیا۔ جیسے ہی وہ وہاں پر قابض ہوا تو اس نے شیخ الجبل (پہاڑ کا شیخ) کا لقب اختیار کر لیا۔ اس کے بارے میں بے شمار داستانیں مشہور ہیں کہ اس نے کئی بڑے بڑے حکماء اور امراء کو ان کی خواب گاہوں میں قتل کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مریدوں جنہیں فدائین کہا جاتا تھا انہیں حشیش یعنی بھنگ کا شربت یہ کہہ کر پلاتا کہ یہ جنت کی شرابِ طہور ہے۔ پھر جب کوئی فدائی مکمل نشے کی حالت میں آ جاتا تو اس کو ایک ایسے مقام پر جا کر پھینک دیا جاتا، جسے جنت کی طرح بنایا گیا تھا۔ ایک ایسی خوبصورت اور پر فضا وادی جس کے باغوں کی راہداریوں پر خوبصورت خواتین اسے اپنی آغوش میں لے لیتیں، اس سے دلبستگی کرتیں اور کہتیں کہ ہم جنت کی حوریں ہیں۔ نشہ اُترنے سے پہلے اسے واپس حسن بن صباح کی مجلس میں لے جایا جاتا۔ ہوش آنے پر وہ واپس جانے کی طلب میں ہوتا تو اسے کہا جاتا کہ دیکھو تم نے اب جنت دیکھ لی ہے، اس لئے جان لو کہ یہ مرنے کے بعد تمہارا ہی مقدر ہو گی۔ یوں وہ اس جنت کی طلب میں اپنی جان تک دینے کو تیار ہو جاتا۔ حسن بن صباح اسے جو حکم دیتا، وہ اسے بسروچشم بجا لاتا، خواہ اس میں اس کی جان ہی چلی جانے کا خطرہ کیوں نہ ہو۔ ’’الموط‘‘ کی اس سلطنت کو ہلاکو نے نیست و نابود کر دیا لیکن کسی بھی تاریخی مآخذ اور مصدقہ تواریخ میں ان واقعات کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ ’’الموط‘‘ کے حوالے سے سب سے جامع اور مسند کتاب منشی عطا ملک جوہنی کی ’’تاریخ الموط‘‘ ہے اس میں بھی اس طرح کے کسی قصے کا تذکرہ نہیں ملتا۔ میں نے خود اس قلعہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کو وہاں جا کر دیکھا ہے اس کی اونچائی اور سنگلاخ پہاڑوں میں ایسی جنت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک چھوٹا سا قلعہ ہے اور جنت کے جن مناظر کا ان کہانیوں میں ذکر ہے، وہ کسی وسیع و عریض علاقے پر ایک جنتِ ارضی کا نمونہ تھیں۔ اس قلعے میں تو مشکل سے شیخ الجبل اور اس کے چند حواریوں کو رہنے کی جگہ ہی میسر ہو سکتی تھی۔ لیکن کمال ہے اس مغربی پراپیگنڈے کا کہ اس الف لیلوی داستان کو ’’حشیشین‘‘ کے نام سے بدل کر انگریزی میں "Assassins"کا نام دیا گیا اور اس پر لاتعداد کتابیں، ناول اور ادب تخلیق کیا گیا، بلکہ 1995ء میں اس نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں ریمبو کا کردار ادا کرنے والا سلوسٹر سیٹالون (Sylvester Stallone) ہیرو تھا۔ چند ہزار کی ایک چھوٹی سی ’’نزاری‘‘ نام کی تحریک کو پھیلا کر اسے پوری دنیا میں دہشت گردی کی خشتِ اوّل قرار دینا، مغربی دنیا کے میڈیا کا ہی کمال ہے۔ ان دنوں لنڈسے پورٹر (Lindsay Porter) کی کتاب مارکیٹ میں آئی ہوئی تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ شاید شہزادے کو اسی کتاب نے متاثر کیا ہے۔ میں نے فوراً اس کتاب کا ریفرنس دیتے ہوئے اسے کہا کہ کیا آپ نے وہ افسانوی تاریخ (Fictional History) تو نہیں پڑھی تو وہ ایک دَم مسکرا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ اس خطے میں التمش نے مئی 1211ء میں مسلمانوں کی حکومت قائم کی تھی۔ مسلمانوں کی تعداد یہاں آٹے میں نمک کے برابر تھی اور 646 سال بعد یعنی 1857ء کو جب انگریزوں نے یہاں اقتدار سنبھالا اس وقت بھی یہ مسلمان ایک محدود اقلیت ہی کا درجہ رکھتے، مگر اقتدار پر قابض تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان چھ سو سالوں میں ہندو بھی ہمیشہ اقتدار میں حصے دار رہے۔ وہ اورنگ زیب عالمگیر جسے سب سے زیادہ متعصب بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اسی کے دور میں ہندو درباری عمائدین کا حصہ 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کر دیا گیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت اور استعجاب کی بات یہ ہے کہ ان مسلمان حکمرانوں کے زمانے میں ایک دفعہ بھی ہندو مسلم فساد برپا نہیں ہوا۔ پہلا ہندو مسلم فساد 714 سال بعد 1925ء میں ناگ پور میں ہوا جب انگریز مکمل طور پر اس ملک پر اپنا یونین جیک لہرا چکا تھا اور تعزیراتِ ہند، ضابطۂ فوجداری اور ضابطہ دیوانی جیسے قوانین نافذ کر چکا تھا۔ ہندو مسلم فساد کی تاریخ تو الگ رہی، مسلمانوں کو جس فرقہ وارانہ شدت پسندی کی وجہ سے بدنام کیا جاتا ہے اس کا بھی کوئی سراغ مسلمان حکمرانوں کے دور میں نہیں ملتا۔ پہلا شیعہ خاندان 1030ء میں سید سالار دائود غازی اور سید سالار مسعود غازی کا تھا، جو اودھ کی ریاست میں آ کر آباد ہوا اور ان کی اولاد میں سے سید عبداللہ زربخش اور سید زید شہسوار نے ’’بارہ بنکی‘‘ کے قریب زیدپور شہر آباد کیا۔ لیکن اے عزت مآب شہزادہ صاحب! مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے، جب برصغیر میں پہلا شیعہ سنی فساد لکھنؤ میں 1906ء میں ہوتا ہے۔ میرے پاس اس کا تفصیلی جواب موجود ہے، لیکن میں آپ کی اس ایک گھنٹے کی تاریخی مقامات کی اس سیر کو تلخ نہیں بنانا چاہتا۔ ٭٭٭٭٭