کہا جا رہا ہے کہ وقت بدلنے کے ساتھ کتاب ختم ہو گئی ،لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ وقت تبدیل ہوتا رہتاہے ، ثبات صرف تغیر کو ہے ، تغیر ہی زندگی کا نام ہے ، اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کی اہمیت ختم نہیں ہوئی اور نہ ہوگی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ڈیجیٹل دور میں کاغذی کتب کا مطالعہ ذرا کم ہوا مگر یہ کہنا غلط ہے کہ کتاب مر گئی یا ختم ہو گئی ہے ، کاغذی کتب کی جگہ ڈیجیٹل کتابیں آ گئی ہیں ۔ صرف شکل و صورت تبدیل ہوئی ہے باقی کتاب اپنی جگہ موجود ہے ۔ یورپ کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو یہ سب کچھ کتاب کے باعث ہوا ۔آج بھی یورپ میں ہر کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہے ۔ کتاب کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے ’’ لکھیا لوہا ، الایا گوہا ‘‘ ، یعنی تحریر شدہ چیز لوحِ محفوظ ہے اور بولی گئی بات راکھ کی مانندہے ۔ کتاب کی اہمیت ہم اس طرح بھی واضح کر سکتے ہیں کہ خواجہ فرید قریباً بیس ہزار ایکڑ زمین اور بیش بہا املاک کے مالک تھے ، مگرا ن کی پہچان ایک دیوان( جس کا وزن بمشکل آدھا کلو ہو گا ) بنی، اوران کی تمام املاک پر بھاری ہے ۔ کتاب اس لئے بھی اہم ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ خود صاحب کتاب ہے ۔ گزشتہ دنوں روزنامہ 92 نیوز لاہور کے دفتر جانا ہوا ۔ سینئر صحافی عامر خاکوانی سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے اپنی نئی کتاب زنگار عطا کی ۔ آرٹ پیپر پر شائع ہونے والی اس کتاب کو بک کارنر نے شائع کیا ۔ مضامین کی اس کتاب کو مختلف ابواب زندگی سفر ، علم و ادب ، زندگی کے سبق ، موٹیویشنل کالم ، عملِ خیر، تصوف / روحانیت، تاریخ / واقعات ، مباحث/ نقطہ نظر، جج/ فیصلے میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ کتاب میں شامل ایک مضمون ’’ میری پسندیدہ کتابیں ‘‘ نے متاثر کیا ۔ جس میں فرانسیسی رائٹر موپاساں ، سمرسٹ مام ، اوہنری ، چیخوف ، مولانا آزاد، ٹالسٹائی ، دستوئیفسکی ، ستار طاہر، سارتر ، گارشیا، حوزے سارا گوما ، جمیلہ ہاشمی ، عبداللہ حسین، قرۃ العین طاہرہ ، رسول حمزہ توف، کلدیپ نائر ، نوم چومسکی، سید علی ہجویری ، مجدد الف ثانی کی کتابوں کا ذکر موجود ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عامر خاکوانی نے ام الکتاب قرآن مجید کے مطالعے کا ذکر کرکے دل خوش کر دیا ۔ خوشی کی بات ہے کہ آج کے دور میں بھی عامر خاکوانی ، ایسے لوگ موجود ہیں جو کتابوں کے رسیاء ہیں اور کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں ،کتاب کی اشاعت پر عامر خاکوانی کو جتنی مبارکباد دیں ، کم ہے ۔ کتاب کے بارے میں ہارون الرشید نے لکھا کہ عامر خاکوانی میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں ، اوریا مقبول جان نے لکھا کہ عامر خاکوانی ان لکھنے والوں میں سے ہیں جن کا میں شروع سے مداح ہوں ۔ عطا الحق قاسمی نے لکھا کہ عامر خاکوانی کے کالم وقتی موضوعات نہیں بلکہ ابدی موضوعات کے حامل ہیں ۔ میں کتاب کے بارے میں اتنا عرض کروں گا کہ بہت سے لوگ آج بھی کتاب دوستی کا دم بھرتے ہیں اور وہ کتابوں کو عام کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں کہ ’’ کلاشنکوف نہیں کتاب‘‘ کے نعرے کو تقویت اور پذیرائی ملنی چاہیے۔آج کی مادہ پرستی ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے دور میں کتاب دوستی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور قلم کی طاقت سے کلاشنکوف کو شکست دی جا سکتی ہے ۔ پاکستان میں کتابوں کی طباعت و اشاعت کو دیکھتے ہیں تو قیام پاکستان سے پہلے لاہور کتابوں کی اشاعت کا مرکز چلا آ رہا ہے ، 1848ء میں کوہ نور کے نام سے چھاپہ خانہ اور اخبار شائع ہوا ، 1887ء میں شیخ غلام علی نے چھاپہ خانہ قائم کیا ، پیسہ اخبار کی اشاعت ہوئی ، 1894ء میں سید ممتاز علی نے بچوں کا رسالہ پھول اور خواتین کا تہذیب نسواں شائع کیا ۔ مولوی فیروز الدین نے فیروز سنز پرنٹنگ پریس کے نام سے ادارہ قائم کیا ۔ دوسرے اداروں کی ترتیب اس طرح ملک محمد دین اینڈ سنز (1905ء ) ، پیکو آرٹ پریس (1912ء ) ، شیخ غلام حسین (1927ء ) ، تاج کمپنی ( 1929ء ) ، ملک سراج الدین ( 1935ء ) ، ملک چنڑ دین ( 1935ء ) اور اس کے بعد پبلشنگ اداروں کے قیام کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے ۔ انہی پبلشنگ اداروں نے لاہور کو لاہور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ طباعت و اشاعت کا تمام کام دیگر زبانوںمیں ہوا ، لاہور کی اپنی زبان جسے پہلے لاہوری زبان کہا جاتا تھا ، بعد میں پنجابی زبان کہلائی میں کوئی کام نہ ہو سکا ۔ ایک بات جس کا میں خصوصیت سے ذکر کروں گا ، وہ یہ ہے کہ پاکستانی زبانوں میں بھی کتابوں کی اشاعت ہونی چاہئے ۔ سندھی خوش قسمت زبان ہے ، مگر پنجابی ، پشتو ، سرائیکی ، بلوچی ، پوٹھوہاری ، براہوی و دیگر پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ سرائیکی کتابوں کی اشاعت اور سرائیکی کتاب میلوں کے انعقاد کے سلسلے میں ہم نے جھوک کی طرف سے اب تک سینکڑوں کتاب میلے منعقد کیے ہیں اور جھوک کی طرف سے شائع شدہ کتابوں کی تعداد چھوٹی اوربڑی کتابوں کو ملا کر ایک ہزار سے بڑھ چکی ہے ۔الحمد اللہ کتاب دوستی کا یہ فریضہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت ادا کیا ہے اس میں کسی بھی سرکاری یاغیر سرکاری ادارے کی کوئی سر پرستی حاصل نہیں ۔سرائیکی زبان اس وقت یونیورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہے سرائیکی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی ہو رہی ہے لیکن کسی سرکاری لائبریری نے سرائیکی کتابوں کی طرف توجہ نہیں دی ،سرائیکی ریاست بہاولپور کی سنٹر ل لائبریری جس کی بنیاد 1924ء میں رکھی گئی اور جس کی عمارت پوری دنیا میں ’’عالیشان ‘‘قرارپائی، جب سے پنجاب حکومت کے دائرائے اختیار میں آئی ہے وہاں بھی سرائیکی کتابوں کا داخلہ بند ہے البتہ سرائیکی وسیب کی نجی لائبریریوں میں جھنڈیر لائبریری میلسی کا بہت بڑا نام ہے وہاں سرائیکی کتابیں موجود ہیں اسی طرح بہاولپور میں سیٹھ محمدعبید الرحمان کی سرائیکی لائبریری اور سید انیس گیلانی کی مبارک لائبریری میں نایاب سرائیکی کتابیں موجود ہیں ۔ اس کے ساتھ وسیب میں چھوٹی بڑی لائبریریاں ہر جگہ موجود ہیں ۔مزید لائبریریاں قائم ہونی چاہئیں ، جو احباب دلچسپی رکھتے ہوں ، ہم ان کی مدد کیلئے تیار ہیں ۔