پہاڑوں کے دامن میں یہ کم و بیش 200 سے زائد سیڑھیاں تھیں، جنہیں چڑھتے چڑھتے سانس پھولنے لگتا ہے، سو ہم کچھ دیر کو راستے میں رکھے ہوئے بنچوں پر سستاتے اور بلندی سے پرسکون شہر کو دیکھتے ہوئے ورلڈ ہیریٹیج میں شمار ہونے والی دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جولیاں کے داخلی دروازے تک پہنچے۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہاں آنے سے پہلے ہی مجھ پر اس منفرد جگہ کی قدامت بھری فضا کا سحر طاری تھا ۔یہاں تک کہ جب گائیڈ نے دروازہ کھول کر لوہے کی چھت سے ڈھکے ہوئے اس خاص حصے میں اندر آنے کی اجازت دی تو لگا کسی ٹائم مشین کے ذریعے میں وقت کے صدیوں پرانے کسی حنوط شدہ منظر میں قدم رکھ رہی ہوں۔ کریم کلر ،بھورے اور ہلکے پیلے رنگ کے ملتے جلتے مختلف شیڈز کے پتھر اور مٹی سے بنے ہوئے چھوٹے بڑے اسٹوپے اردگرد موجود تھے۔دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کا یہ بہت اہم حصہ تھا جہاں تین ہزار سال پیشتر بدھ مت کے پیروکار سکون اور علم کی تلاش میں آتے تھے۔اس زمانے میں یہ ایک بورڈنگ ہاؤس کی طرح تھا۔ یہاں رہائش اور تعلیم دونوں کا بندوبست تھا۔یہاں کا گائیڈ اپنے خاص پوٹھوہاری لہجے میں ہمیں تاریخ کی رٹی رٹائی معلومات ایک خودکار روبوٹ کی طرح دے رہا تھا ۔ بدھ مت کے پیروکاروں کیلئے یہ ایک مقدس جگہ ہے ۔چین ،برما ،کوریا ،تھائی لینڈ ،جاپان سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ اپنی منتیں مانتے ہیں۔ یہ مسیحا بدھا کہلاتا ہے ۔ اسکی ناف میں ایک سوراخ ہے ۔ بدھ مت کے پیروکار ناف میں دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت ڈال کر دعا مانگتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ انکی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ اطراف میں چھوٹے چھوٹے اوپن کمروں کی قطار بھکشوؤں کے عبادت کی جگہ تھی۔ ہر کمرے میں ایک بھکشو طالب علم بیٹھ کر اپنی مخصوص عبادت کیا کرتا تھا۔اس کے درمیان میں تالاب بنا ہوا ہے۔ بھکشو سارا سال یہاں کنول کے پھول اگاتے تھے ۔ چھت کے نیچے ڈھکی ہوئی تین ہزار سال پرانی خانقاہ کے یہ آثار کہیں کہیں نیم تاریکی میں گم تھے اور کہیں سورج کی روشنی ان قدیم پتھروں کو سنہرا کرتی تھی۔ یہ دسمبر 2022 کا آخری دن تھا اور آخری چند دن دسمبر کے ایک خاص کیفیت لیے ہوئے ہوتے ہیں ،جب آپ اس خاص کیفیت میں تین ہزار سال پ قدیم آثارِ قدیمہ کی اس بھید بھری اداسی کا حصہ بنیں تو زندگی کی بے ثباتی اور وقت کے تیز ترین بہاؤ کا احساس آپ کو بے طرح اپنی حصار میں لے لیتا ہے ۔ اس قدیم ماحول کی خاموشی کو دانیال ،مشہود،عزہ۔پنکی اور ماہ پارہ کی آوازیں بھر رہی تھیں یہ بچے عمروں کی جس دہلیز پر کھڑے تھے وہاں زندگی کی بے ثباتی اور وقت کے بہاؤ کا احساس نہیں ہوتا۔ گائیڈ ایک خود کار روبوٹ کی طرح تاریخ کی کتاب کھول کر سبق سنا رہا تھا ۔میں باقی سب سے الگ ہوکر باہر ایک راہداری کی طرف چلی گئی۔میں قدامت کی اس مہک کو اپنے اندر اتارنا چاہتی تھی۔ آس پاس جولیاں کے سرسبز پہاڑ اور ان کے اونچے نیچے دامن میں بنے ہوئے گھر نظر آتے۔ یقینا وہاں زندگی کی گہماگہمی ہوگی مگر سو میٹر بلند یہاں اس پہاڑ کی چوٹی پر یہ ایک قدیم ترین ، بھرپور ویرانہ تھا۔ اس مکمل ویرانی اور خاموشی سے مکالمہ کرتی ہوئی میں آگے بڑھی تو دائیں جانب ایک کمرے سے دھواں نکلتا دکھائی دیا۔ اندر جھانکا تو نیم تاریکی میں ایک خوش شکل خاتون نظر آئی جو مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ سچی بات ہے میں کچھ ڈر سی گئی تھی ۔کئی صدیوں پرانے کھنڈرات کی اس ویرانگی میں کسی تنہا خاتون کی موجودگی کا تصور بھی کون کرسکتا تھا۔ آپ یہاں۔۔۔؟ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی میرا نام غزالہ یاسمین ہے اور میں یہاں پر آثار قدیمہ کی ایک آفیسر ہوں۔ میری سانس میں سانس آئی۔ میں اس وقت تک اس کے پیروں پر نگاہ ڈال چکی تھی کہ وہ کوئی اور مخلوق نہیں انسان ہی ہے مگر میری حیرانی برقرار تھی کہ ویرانہ بھی کسی کی ورک پلیس ہو سکتا ہے۔ اتنی سیڑھیاں چڑھ کر روز ان ویران کھنڈرات میں آتی ہیں ،آپ کو ڈر نہیں لگتا؟ یہاں تو کوئی بندہ بشر ہی نہیں۔ 'آٹھ سے چار بجے تک میری ڈیوٹی ہوتی اور میں روز یہاں آتی ہوں۔اور مجھے اب اس ویرانے کی عادت ہوگئی ہے مجھے ڈر نہیں لگتا"وہ مسکرائی۔یہ کہہ کر وہ چولہے کی طرف مڑی۔دسمبر کی یخ بستگی میں لکڑی کے چولہے پر بنتی چائے سے ا ٹھتا دھواں اور چائے کی مہک میرے اندر اتر رہی تھی۔ ہری پور ہزارہ ڈویژن میں جولیاں کے اس قصبے میں مجھے فلوریڈا کا ویلج میوزیم یاد آگیا جہاں ہم نے قدیم وقتوں کے باورچی خانے دیکھے۔ کوئلوں پر بیکنگ ہو رہی تھی۔ پرانے طرز کے لمبے فراک پہنے ہوئی لڑکیاں میک اپ سے عاری چہروں کے ساتھ تھیں ۔ کچھ نے اپنے سر بھی ڈ ھکے ہوئے تھے۔ چلتے چلتے گائیڈ نے مٹی کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس مٹی کو بدھ مت کے لوگ اپنے لئے شفا کا موجب سمجھتے ہیں۔ وہ یہاں سے مٹی لے کر اپنے ہاتھوں پر ملتے ہیں اور مٹی اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔دانیال، ماہ پارہ، مشہود، پنکی اور عزہ موبائل کیمروں سے تصویریں بنا رہے تھے، ہنس رہے تھے باتیں کر رہے تھے۔ قدیم کھنڈرات کی ویرانی ،نئے زمانے کے لوگوں کی آوازوں سے بھر رہی تھی۔۔۔ مگر میں اسی قدامت کے قلعے کے اندر موجود تھی جہاں تین ہزار سال پہلے کا وقت مجھ سے مکالمہ کررہا تھا۔ جب ہم بدھ مت یونیورسٹی جولیاں کی قدامت بھری فضا سے نکل کر واپس سیڑھیاں اتر رہے تھے تو ڈاکٹر کوثر محمود کی کبھی کی سنی ہوئی نظم میرے آس پاس گونجنے لگی: "پھر ایک ہزار برس گزریں، پھر چار ہزار برس گزریں آثار شناسی کے ماہر اس دور کی جب تحقیق کریں اس رسم الخط کو پہچانیں، اس لمحے کی تصدیق کریں یہ لمحہ قائم و دائم ہو اِس لمحے کی سب کوملتا ، اس عہد کے شاعر تک پہنچے یہ قصہ آخر تک پہنچے" تین ہزار برس پرانا قصہ آج کے لکھاری تک پہنچ چکا تھا۔جولیاں کے قدیم کھنڈرات کی بھید بھری اداسی آج بھی مجھ سے مکالمہ کرتی ہے۔