یہ وہی تحریک انصاف ہے جس نے حکومت میں آنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے تھے۔ دل ربا ہم نے تیرے پیار میں کیا … کیا نہ کیا؟ … پی ٹی آئی نے دل تو نہیں دیا مگر البتہ اس چکر میں بے تحاشہ درد ضرور لے لیے ۔ کیا عمران خان نہیں جانتے کہ ان سے پہلے جو جو حکومت میں رہا … اس نے جو جو کچھ کیا … وقت کی سان پر وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا؟ جب مشرف نے 1999ء میں شریف حکومت ختم کی تو سینٹر سیف الرحمن المعروف احتساب الرحمن کو ایک سیل میں قید کردیا گیا۔ رات کو ان کی کوٹھڑی سے آہ و بکا کی آوازیں آتیں، روتے اور معافیاں مانگتے۔ اس پر دوستوں نے انہیں ملکہ جذبات کا خطاب بھی دیا۔ آج سیف الرحمن کہاں ہیں؟ جسٹس قیوم میاں نواز شریف کے کہنے پر بے نظیر اور آصف زرداری کو ’’قانونی تنگ‘‘ کیا کرتے تھے۔ آج جسٹس قیوم کہاں ہیں؟ تحریک انصاف نے پہلے خوا ب بیچے۔ عوام کو نئے پاکستان کی فلم دکھائی۔ صاحب سوال یہ ہے کہ اگر نوازشریف اور آصف زرداری کی منی لانڈرنگ نے ملک کو دیوالیہ کردیا ہے تو آپ کو اس بات کا پہلے پتہ نہیں تھا؟ آپ نے ہوم ورک نہیں کیا تھا؟ آپ کا کیا کوئی معاشی وژن نہیں تھا اس ملک کے لیے جس کی آپ لگام تھامنے جارہے تھے؟ اگر اشیائے ضرورت ہی مہنگی کرنا تھیں، اگر ڈالر نے اڑان ہی بھرنا تھی، اگر پٹرول، بجلی، گیس اور نہ جانے کیا کچھ مہنگا ہونا تھا تو اتنے تکلف اور شب شبا کی کیا ضرورت تھی … سٹیٹس کو ہی ٹھیک تھا۔ تحریک انصاف نے ایک لمبا سیاسی سفر طے کیا ہے۔ اس نکتہ عروج و زوال تک پہنچنے کے لیے۔ 1997ء میں اسے کوئی نشست نہ ملی … 2002ء میں ایک … 2008ء میں اس نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا … 2013ء میں دوسری جماعت جس نے سب سے زیادہ ووٹ لیے اور پھر حکومت۔ بہت بڑے دعوے … ہزاروں امیدیں … سپنے اور باتیں مگر اس کا اینٹی کلائمکس بڑا دردناک ہے۔ اس وقت اگر تحریک انصاف عوام کے پاس جائے، ووٹ مانگنے کے لیے تو اسے مکمل ناکامی ہوگی۔ مگر یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ اسے پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے۔ گائوں میں ایک قتل ہوگیا۔ ملزم نے ایک نسبتاً سستے وکیل سے فیس پوچھی … اس نے کہا دس ہزار۔ اسے اطمینان نہ ہوا۔ وہ ایک بڑے وکیل کے پاس چلا گیا۔ اس نے دو لاکھ فیس مانگی۔ فیس ادا کردی گئی۔ ملزم کو پھانسی کی سزا ہوگئی۔ ہتھکڑیاں لگائے ملزم کو عدالت میں وہی سستا وکیل مل گیا۔ وہ ملزم کے قریب گیا اور کان میں کہنے لگا میں یہی کام صرف دس ہزار میں کرنے کو تیار تھا مگر تم نے اس کے دو لاکھ ادا کیے۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ عمران خان کے دھرنے اور دعوے یاد آرہے ہیں۔ جب آئے گا عمران… بنے گا نیا پاکستان … سب کچھ کہنے کی تاب نہیں۔ مگر یہ کہ وہی معاشرہ … وہی ریاست … وہی دفاتر … وہی بیوروکریسی … وہی سیاستدان… وہی حلقے … وہی تھانہ … وہی کچہری … وہی ادارے … وہی ایک پیج پر یا دو پیج پر۔ بدلا کیا ہے؟ مریم اورنگ زیب کی جگہ فردوس عاشق اعوان (اللہ دونوں کو نظر بد سے بچائے)؟ اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ؟ یا چند بیوروکریٹس کی جگہ مزید چند بیوروکریٹس۔ عمران خان کا عہد حکومت دیکھ کر مجھے بار بار سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’نیا قانون‘‘ اور اس کا کردار منگو کوچوان یاد آتا ہے۔ وہی فضا ہوتی ہے … وہی لوگ… وہی روٹین اور منگو سمجھتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ آج کا منگو میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوشیار ہوگیا ہے۔ اس لیے وہ چیخ رہا ہے، سوال کر رہا ہے، احتجاج کر رہا ہے، سینہ کوبی کر رہا ہے۔ مگر سفید پوش، وائٹ کالر تنخواہ دار طبقہ تو احتجاج بھی نہیں کرسکتا کہ اس کی تنخواہ سکڑ گئی ہے۔ اس پر ٹیکس بڑھ گیا ہے۔ وہ اب بچے سکول کیسے بھیجے گا؟ ان کی فیس کیسے ادا کرے گا؟ کچن کیسے چلائے گا؟ آپ بوجھ شفٹ کرتے ان پر جو آپ کے نیٹ میں نہیں ہیں۔ آپ نے ان ہی کو مزیدتنگ کردیا جو پہلے ہی مرغ بسمل تھے۔ ایسے میں آپ لاکھ کہیں کہ تم چور ہو، یہ ڈاکو ہیں، مگر صاحب آپ کی پرفارمنس کہاں ہے؟ آپ کی کارکردگی کا گراف ہے بھی یا کہ نہیں؟ طاقت کے حصول کا یہ بے رحم کھیل تو یونہی چلتا رہے گا مگر دکھ ہوا … شدید دکھ ہوا… اس شاعر کی موت کا جس کا ذکر چند دن قبل انور سجاد کے ساتھ کیا تھا۔ دل دل پاکستان جیسے قومی نغمے کے خالق نثار ناسک فاقوں اور بیماری کے ہاتھوں چل بسے۔ زیادہ پرانی بات نہیں … برادرم حسن نثار کہہ رہے تھے ’’جب تم اسلام آباد واپس جائو تو راولپنڈی میں نثار ناسک کا محلہ اور گھر تلاش کرکے میرا یہ پیغام اس تک پہنچادینا‘‘۔ عامر فیاض بہت متحرک نوجوان ہے … وہ راولپنڈی کے ایک پسماندہ محلے میں نثار ناسک کے گھر تک پہنچ گیا … اور ورطہ حیرت میں مبتلا بھی ہوگیا۔ اس کمال کی شاعری … اور اس سطح کا زوال؟ بیماری اور فاقوں سے یہ عظیم شاعر … نڈھال ہوچکا تھا۔ جو اس کے لیے ہوسکتا تھا … کیا گیا۔ مگر یہ انفرادی دکھ نہیں ہے، یہ اجتماعی ٹریجڈی ہے۔ خوبرو اداکار حبیب سے کامیڈی کنگ منور ظریف تک … باکمال ببوبرال سے بے مثل جملہ بولنے والے مستانہ صاحب تک … اور مدھر دھنوں کے خالق ماسٹر عبداللہ سے بیچارے علی اعجاز تک!!! طاقت کا کاروبار سبھی معاشروں میں ہوتا ہے مگر ایسا شاید ہی کہیں کسی اور جگہ ہوتا ہوگا۔ شاید اسی کو کہتے ہیں کہ … زوال آئے تو پورے کمال سے آئے!!!