غور و فکر کی فرصت ہی نہیں ۔انہماک ‘ جس کے بغیر راہ متعین ہو سکتی ہے‘ ذاتی زندگی سنور سکتی ہے نہ اجتماعی۔ ہیولا برق خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی تحفظ خوراک کی ایک وفاقی وزارت ہوتی ہے جو Ministry of food Securityکہلاتی ہے۔اس لئے کہ اردو بولتے اور لکھتے ہوئے‘ شرم محسوس ہوتی ہے۔ کہنے کو ہماری قومی زبان ہے مگر چند ہی ادارے ہوں گے جن کے نام اردو میں رکھے گئے۔ ان میں سے ایک زرعی ترقیاتی بنک ہے۔ کیا اردو کا پیراہن عطا کرنے سے‘اس ادارے کے تاثر اور مفادکو کوئی نقصان پہنچا؟ خیر‘ یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ ناچیز میانوالی میں ہے۔ ہفتوں سے ایک تنازعہ چلا آتا ہے کہ پانچ ارب سے ضلع میں جو سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں‘ معیاری ہیں یاناقص ۔کچھ کا کہنا یہ ہے کہ ٹھیکے سفارش پر دیے گئے اور لوٹ مار کا سلسلہ پیہم ہے۔ شکایت کرنے والوں کو اپنی حقانیت کا یقین ہے۔سطحی آدمی نتیجہ تیزی سے اخذ کرتا اور اس کا ایمان بہت پختہ ہوا کرتا ہے۔ اس موقع پر جب بحث کو ملتوی کیا تو کہا گیا کہ اخبار نویس نے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ لٹیروں نے اسے ’’لفافہ‘‘ بنا دیا ہے۔ ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں کسی نے سچ کہا :کپتان سے اس کے دشمنوں سے زیادہ دوستوں کو ڈرنا چاہیے۔ پرسوں پرلے روز کسی نے بتایا کہ متعلقہ سیکرٹری اسداللہ خان ہیں۔ یا رب اسد اللہ خان ؟خان صاحب کو 1995ء سے جانتا ہوں ۔جب وہ گوجر خان کے اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ ایک سبکدوش لیفٹیننٹ جنرل کے فرزند اور مرحوم گورنر غلام جیلانی خان کے فرزند نسبتی۔ جسٹس افتخار چیمہ کے بارے میں‘چیف جسٹس افتخار چودھری نے کہا تھا:اپنی میں قسم نہیں کھاتا‘ مگر جسٹس افتخار چیمہ کی دیانت پر حلف دے سکتا ہوں۔ اسداللہ خان‘ ان نادر و نایاب افسروں میں سے ایک ہیں‘ آنکھیں بند کر کے جن کی دیانت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ بندوں کے نہیں‘ خود کو خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ سرگودھا کی کمشنر ڈاکٹر فرح ہیں۔ اسلام آباد کے سابق سبکدوش کمشنر طارق پیرزادہ کی اہلیہ۔ اتفاق سے ان کے پورے خاندان سے شناسائی ہے۔ ان کے ایک بھائی پولیس میں تھے اور ایف آئی اے سے اب وابستہ ہیں۔ احسان صادق کی طرح‘ جنہیں قاف لیگ سے نون لیگ کا رخ کرنے والے دو ایم پی اے حضرات کی خواہش پر ڈی پی او پاک پتن کے منصب سے ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہیں دیکھ کر امیدبرقرار رہتی ہے: بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر ابھی کچھ لوگ باقی ہیں‘ جہاں میں رفتہ رفتہ‘ بتدریج سول سروس تباہ ہوتی گئی۔ کبھی غلام اسحق خان‘ اجلال حیدر زیدی اور فضل الرحمن ایسے افسر ہوا کرتے تھے‘ اب وہ ہیں‘ ایک کے بعد دوسری حکومت نے جنہیں بتایا کہ ان کے اشارہ ابرو پر اگر نہیں چلیں گے تو خسارے میں رہیں گے۔بازار میں وہی چیز آتی ہے جس کی مانگ ہو۔ بیشتر ذہنی اور اخلاقی طور پر لولے لنگڑے ہیں۔ ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ اور بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو سانحہ 17اگست 1988ء کے بعد‘ غلام اسحق خان صدر بنے تو وہ اپنے ایف 6کے مکان میں رہنے پر مصر تھے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا کہ اتنا بڑا حادثہ بیت چکا۔ ملک غیر مستحکم ہے۔ براہ کرم ایوان صدر میں تشریف لے جائیے۔ایک اور حادثے کے ہم متحمل نہیں۔ پہلی شام خان صاحب ایوان صدر کی فالتو بتیاں بجھاتے رہے‘ جن کے بارے میں شہباز شریف نے کہا تھا: خدا جانے اس پٹواری سے ہماری جان کب چھوٹے گی۔ دوسرے دن ایوان صدر کے وسیع و عریض صحن میں انہوں نے دیگیں پکتی دیکھیں۔ پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ ایوان صدر کے ملازمین کو دوپہر کا کھانا سرکار مہیا کرتی ہے۔’’کیا انہیں تنخواہ نہیں ملتی ؟‘‘ صدر نے اپنے ہمیشہ کے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ پھر ضیافت کے لئے مختص بجٹ کی تفصیل طلب کی۔ ایک لاکھ روپے روزانہ! اس فائل پر انہوں نے لکھا؛ not more than one thousand rupees a day اُن لوگوں میں یہ طالب علم شامل نہیں‘ جو جنرل ضیاء الحق کو حضرت آدم سے لے کر اکیسویں صدی تک کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘ باایں ہمہ لکھ لٹ تھے اور ناتراشیدہ مذہبی طبقے کے سرپرست۔ ایوان صدر کے کے لئے 600کاریں مختص تھیں‘ مہمان داری کے لئے۔ صدر نے یہ سب کی سب گاڑیاں متعلقہ محکموں کو واپس بھیج دیں۔ خان صاحب کی حکومت جہانگیر ترین اور ان کے جہاز کی مدد سے بنی‘ ورنہ اکثریت تو انہیں حاصل نہ تھی۔ وہ ان کابازوئے شمشیر زن تھے۔سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود‘ اپنی ٹیم میں انہیں شامل رکھا۔آخر کیوں؟پھر معتوب وہ کیوں ہوئے؟ اس سوال کا جواب آنے والاکل دے گا۔سات سمندر پار‘ حیران اور دکھی‘ زبان حال سے وہ پوچھ رہے ہیں: ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی ٔ فرشتہ ہماری جناب میں سڑکوں پر تحقیق کے لئے میانوالی پہنچا تو معلوم ہوا کہ تعمیر نہیں‘مسئلہ پی ٹی آئی کے لیڈر اور کارکن ہیں‘ بالاتری جتلانے کا وہی مرض۔ ’’ہم کیوں نہیں اور وہ کیوں‘‘؟ ممکن ہے کہ کہیںکچھ کجی اور کمی بھی ہوکہ ٹھیکے داری نظام کوڑھ زدہ ہے۔ سراغ لگانے کے لئے مگروقت چاہیے۔آج کا دن یہ فرض انجام دینے کی کوشش کرتا مگر یہ یوم کشمیر ہے۔ صدر دفترمجھے حاضر ہونا ہے۔ دریں اثنا پی ٹی آئی کے مقامی گروہ باہم متصادم رہیں گے۔ جنگ وجدل کا ایسا سبق خان صاحب نے پڑھایا ہے کہ دوسروں سے فرصت ہو تو باہم دست و گریباں رہتے ہیں: ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی غور و فکر سے جب گریز ہو نعرہ بازی جب شعار ہو تو الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی کے سوااور کیا۔ نابالغ انسانی ذہن ایک سانچے میں ڈھل جائے تو سیکھنے سے انکارکر دیتا ہے۔ اخبار نویسوں کو ان کے کارکن جرائم پیشہ کہتے ہیں تمام کے تمام اخبار نویسوں کو۔اور اپوزیشن کو ڈاکو۔اپوزیشن بھی کیا کم ہے۔ اس کا وتیرہ بھی یہی ہے۔ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔غیض و غضب سے بھرے لوگ ہمہ وقت ایک دوسرے کے درپے رہتے ہیں۔جو نہیں جانتے کہ استحکام اور فروغ کیلئے ایک قومی اتفاق رائے اقوام کو درکار ہوتا ہے۔ قانون کی بالاتری ، علم کا فروغ ، سول اداروں کا استحکام اورشائستہ سیاسی جماعتیں۔ تحفظ خوراک کے وفاقی سیکریٹری نے انکشاف کیا ہے کہ بندرگاہ پہ درآمدی گندم 1780 روپے فی من پڑے گی۔نقل و حمل کے اخراجات سوا۔ کسانوں سے گندم جبراً 1400 روپے میں خریدی گئی۔ فلور ملوں والے پریشان کہ خریداری کی اجازت نہ ملی۔وہ پریشان ،سرکار حیران‘ خریدار دکھی ‘ فائدہ کیا ہوا؟ کسانوں کو اگر مراعات دی جاتیں۔ زرعی ایمریجنسی کا وعدہ اگر پورا کیا جاتاتو سرکاری خزانے اور عوام کواربوں روپے کا یہ زخم نہ لگتا۔ غور و فکر کی فرصت ہی نہیں ۔انہماک ‘ جس کے بغیر راہ متعین ہو سکتی ہے‘ ذاتی زندگی سنور سکتی ہے نہ اجتماعی۔ ہیولا برق خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی