چار روز پہلے نیاز احمد سنگھیڑہ فوت ہوگئے۔کیا شاندار دانشور تھے ، عام لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا لیکن دنیا کے قدیم و جدید نظریات کا تجزیاتی مطالعہ۔خود کو ڈرائنگ روم مفکرین سے دور رکھا ، معاشرہ شوبز انڈسٹری میں تبدیل نہ ہو چکا ہوتا تو اس موت کی خبر پورے پاکستان کو ہوتی۔چند ماہ قبل برادرم مدثر اقبال بٹ کی مدعیت میں نیاز سنگھیڑہ کی ایک درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے پنجابی زبان سرکاری سطح پررائج کرنے سے متعلق حوصلہ افزا ریمارکس دیئے تو وہ بہت خوش ہوئے ۔ان ریمارکس کو تمام اخبارات نے نمایاں شائع کیا۔ محدود سے ذاتی وسائل سے قوم کی فکری تربیت کرنے والے نیاز سنگھیڑہ آئین پاکستان کی سماجی جہات کا تجزیہ کرنے والے شایدواحد پاکستانی تھے۔ وہ کہاکرتے: ’’آئین 1973ء نہ وفاقی ہے نہ وحدانی‘ نہ سیکولر ہے نہ کٹڑ مذہبی‘ نہ جمہوری ہے نہ غیر جمہوری۔ یہ چوں چوں کا مربہ ہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ آدھا برطانوی آدھا امریکی۔ اس میں امریکی سینٹ کے برعکس برطانوی قسم کا بے اختیار سینٹ۔ برطانوی لارڈ چانسلر کی جگہ امریکی طرز کا چیف جسٹس‘ برطانوی ہندوستانی گورنر کی بجائے بے ضرر قسم کے صوبائی گورنراور سب سے بڑھ کر یہ کہ برطانوی ملکہ‘ بادشاہ کی جگہ سیاسی متنازعہ اور جانبدار صدر کا ہیولہ کسی جہانگیری مقبرے سے اٹھا کر کھڑا کردیا گیا ہے۔ یہ ایسی بے جوڑ پیوندکاری ہے جو قومی جمہوری گاڑی کو کبھی آگے نہیں چلنے دیتی۔‘‘ محدود نیشنلائزیشن بھٹو عہد کا اہم فیصلہ تھا۔ نیاز سنگھیڑہ کا خیال تھا کہ ’’ محدود نیشنلائزیشن کا فیصلہ خالصتاً غیر جمہوری تھا۔ غیر جمہوری رویوں کا ردعمل کبھی جمہوری نہیں ہوتا لہٰذا اتنا ہی سخت ردعمل بھٹو کی مخالف قوتوں یعنی پی این اے نے ظاہر کیا۔ یہ قوتیں بھی سراسر غیر جمہوری تھیں لہٰذا انہوں نے منطقی طور پر ملک کی باگ ڈور مذہبی جنون میں مستغرق فوجی جرنیل ضیاء الحق کے ہاتھ میں تھمادی جس کے غیر جمہوری انتقامی ردعمل نے پاکستان کے اس نامور اور عظیم سیاستدان کو موت کی نیند سلا دیا۔‘‘ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے بڑا نپا تلا تبصرہ کیا: ’’توہین آمیز خاکے بنانے والے حضور اکرمؐ کی زندگی‘ سیرت النبی یا تاریخ اسلام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم موجودہ دور کے مسلمانوں کے طرز زندگی‘ معاشرت‘ معیشت‘ حکومت اور ذہنی رویوں کو وہ جس نظر سے دیکھتے ہیں وہ ان گستاخ خاکوں سے پوری طرح عیاں ہے۔‘‘ نیاز سنگھیڑہ زمین کی ملکیت کے موجودہ تصور کو انگریز کا بڑا ظلم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’انگریزوں نے اراضی کی غیر منقولہ حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے منقولہ جائیداد کی طرح سرمایہ میں تبدیل کردیا۔ جس کا جی چاہے خریدے اور اپنے نام منتقل کروا کر زمیندار یا فیشنی طور پر جاگیردار کہلوائے۔ اس طرح زمین جو کسان کے ازلی جذبوں‘ گھریلو ضرورتوں اور ابدی رشتوں کی پہچان تھی‘ سر راہ نیلام کردی گئی۔ انگریز نے اس طریقہ کار کے تحت ہندوستان کے لوگوں پر جاگیرداری مسلط کردی۔‘‘ ایک بار ہم جدید مالیاتی و سرمایہ کار کمپنیوں پر بات کر رہے تھے، بولے: ’’کیا سرکاری‘ نیم سرکاری اور نجی میڈیا پر کروڑوں روپوں کی انعامی سکیمیں ‘پرائز بانڈ‘ انشورنس پالیسیاں‘ لاٹریاں‘ معمے سٹہ بازیاں‘ ساہو کاریاں‘ ایک خریدنے پر ایک مفت یا دو سو فیصد منافع کا اعلان کرنے والی فنانس کمپنیاں آپ کو راتوں رات کروڑ پتی بنانے کے لیے معرض وجود میں لائی جاتی ہیں؟ نہیں یہ صرف آپ کی رقم کو نہایت چالاکی کے ساتھ اینٹھنے کے لیے قائم کی جاتی ہیں‘ آپ کی رقم دگنی کرنے کا چانس ایک فیصد سے بھی کم جبکہ کمپنی کے مالکوں کا چانس 99 فیصد سے بھی زیادہ رکھا جاتا ہے۔۔‘‘ نیاز سنگھیڑہ پکے پنجابی تھے۔ ان کے پاس پنجاب اور پنجابیوں پر علمی وار کرنے والوں کا موثر جواب ہوتا تھا۔ ایک بار نوازشریف نے پنجابی شناخت سے الگ ہونے کا بیان دیا تو میں نے کالم لکھا ،میرے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے چوہدری نیاز احمد سنگھیڑہ نے کہا کہ: ’’پنجابیوں نے اکثر حملہ آوروں پر کبھی غصے کا اظہار نہیں کیا۔ کیونکہ حملہ آوروں نے ان کے زرعی خودکفیل نظام میں زیادہ مداخلت نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجابیوں کی قوت برداشت‘ صبر و تحمل اور بردباری میں اضافہ ہوا۔ ہم جس قسم کی نفرت پر مبنی قوم پرستی آج کل دیکھتے ہیں اس کا احساس زیادہ تر چٹیل میدانوں یا خشک پہاڑوں کی بھوک ننگ یا سرمایہ دار ملکوں کی سامراجی خواہشات کے تلے پروان چڑھتا ہے۔ جہاں کے لوگ محنت کرکے خوشحال ہوئے ہوں وہاں متشدد قوم پرستی کے جذبات نہیں ابھرتے۔‘‘ نیاز سنگھیڑہ کی چار کتابیں شائع ہوئیں۔ دیو کی قید اور ساتواں در‘ پاکستان میں قوم سازی کا عمل‘ پاکستان کے آئین کا مسئلہ اور عجوبے اور حقائق۔ چند سال پہلے گرین ٹاون سے انجنئیر ٹاون منتقل ہو گئے ، راستے میں ہماری نرسری پڑتی تھی ،گزرتے ہوئے مجھے فون کر لیتے یا پودوں میں گھوم پھر کے خوش ہوتے،چند ماہ قبل پاتھی گراونڈ سکول کا ہیڈ ماسٹر بیٹا دفتر میں اچانک انتقال کر گیا ،نیاز سنگھیڑہ کے لیئے یہ صدمہ بہت بھاری تھا۔ان کے بیٹے ان کے فرمانبردار رہے ،عمران تو دوستوں کی طرح باپ سے لاڈ کیا کرتا،مجھے کہا کرتے تمہاری وجہ سے نائینٹی ٹو اخبار لیا ہے،میں شکریہ ادا کرتا تو ملاقات کا کہتے، روزگار کا جبر یہی ہے کہ آدمی کو اپنے پیاروں کی مجلس میں بیٹھنے کی بجائے ایک مشینی ماحول میں کام کرنا ہوتا ہے ،ابی دو ہفتے پہلے فون پر بات ہوئی ، جٹکی آواز نحیف سی ہو گئی تھی ۔ ایسا اجلا شخص‘ روشن دماغ فوت ہوا تو جنازے میں صرف عزیز اور چند ذاتی دوست تھے۔ جن کی تربیت کرتے رہے ان کو خبر نہ ہوئی کہ پاکستان کس شخصیت سے محروم ہوگیا۔اللہ ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔