5 جنوری1949ء اہل کشمیر کے حافظے کی لوح پر ایک بھیانک یاد کے طور پر سوالیہ نشان بن کر محفوظ ہے جب بھی یہ دن آتا ہے تو کشمیریوں کو اپنے مقدر کی وابستگی کی وہ تاریخی داستانیں یاد آتیں ہیں جن کے اثر سے آج بھی کشمیری مسلمان باہر آنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں۔یہ اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی سال تھے۔ لیگ آف نیشنز کے نام سے ایک عالمی تنظیم جنگ عظیم دوئم کی بھڑکنے والی آگ میں بھسم ہو چکی تھی۔ اقوام عالم نے مجلس اقوام کواس وقت تاریخ کی قبر میں دفن کر دیا تھا جب یہ طے ہو چکا تھا کہ جو عالمی تنظیم ایک ایسی عالمی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس نے انسانوں اور انسانیت کو موت، تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا ،وہ اپنے وجود کا جواز نہیں رکھتی مجلس اقوام کی راکھ پر ہی اقوام متحدہ کے نام سے ایک نئی تنظیم کا تاج محل اس امید کے ساتھ تعمیرکیا گیاجو دنیا کو جنگوں ، بھوک ، افلاس ، جہالت، بیماری سے بچائے ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ مظلوم اور غلام قوموں کو اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا میں بہت سے مقامات پر مظلوم طبقات اور قوموں نے یوا ین چارٹر کا سہارا لے کر نہ صرف یہ کہ آزادی اور حق خود ارادیت کی تحریکیں شروع کیں بلکہ اس چارٹر سے اپنی جدوجہد کے لئے جوازیت بھی تلاش کیا۔اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی ماہ و سال میں ہی دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے لگا۔ برطانیہ جو ایک طویل عہد سے دنیا میں منصب داری پر فائز تھا، اپنی حیثیت سے محروم ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ پہلے سوویت یونین اور پھر امریکہ منصب داری پر فائز ہوئے۔ یورپی ممالک جو ہٹلر کی پالیسیوں کے باعث بری طرح تقسیم کا شکار تھے ، متحد ہونے لگے ۔برطانیہ نے اپنی نو آبادیوں کو آزادی دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔ برصغیر بھی اس ہلچل کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اور برطانیہ کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی یہاں بھی مختلف النوع تحریکیں شروع ہو گئیں ۔ اسی ماحول میں مسلمانانِ برصغیر نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ شروع کیا، جبکہ کشمیر ی قومنے بھی ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کی ۔ اہل کشمیر کا سیاسی میلان کچھ اور تھا، جبکہ وقت کی کانگریسی قیادت کشمیریوں کی خواہشات کو جبر، دھونس، دھاندلی، مکر، ترغیب اور ہر انداز سے کچلنے اور اغوا کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ کانگریسی قیادت کے ان خوابوں میں انگریز بھی نہایت عیاری سے بھر پور انداز میں رنگ بھرنے کی کوشش کر رہا تھا اور یوں کشمیر ایک تنازعہ بنتا چلا گیا اور کشمیری مسلمان حالات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ۔ کشمیری مسلمانوں کی فکراور خواہشات کو اغوا کرنے کیلئے جو سازشی جال بنے گئے ، ان کے تحت بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں جبکہ قبائلی آزاد کشمیر کی طرف سے پیش قدمی کرتے چلتے گئے ۔نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے مابین سر زمین کشمیر پر با قاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا ۔جنگ طویل عرصہ تک جاری رہی اور آخر کار بھارت نے نوزائیدہ اقوا م متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔ بھارت اپنا مقدمہ اس دعوے کے ساتھ اقوام متحدہ میں لے کرگیا کہ کشمیر میں حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کا اہتمام کر کے کشمیریوں کو آزادانہ طور پر اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے گا جبکہ پاکستان کا مقدمہ تو تھا ہی یہ کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے ۔ پاکستان کشمیر کے ساتھ جغرافیائی ، نظریاتی ،تہذیبی اور تاریخی رشتوں کے باوجود کشمیر پر اپنا حق جتلانے کی بجائے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وکیل بنا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان، بھارت اور کشمیر کے نمائندے اپنا اپنا موقف پیش کرتے چلے گئے ۔ بھارتی موقف کی حمایت میں ایک بار شیخ عبد اللہ جبکہ آزاد کشمیر کی طرف سے سر دار ابراہیم خان پیش ہوئے۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کی صورت حال کو جاننے کے لئے یکے بعد دیگرے کئی مصالحتی مشن بھیجے، جنہوں نے اپنی رپورٹس مرتب کر کے اقوام متحدہ کے کار پردازان کو پیش کیں۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے موضوع پر قراردادوں کی منظوری کا عمل بھی جاری رہا۔قرارداد کا کوئی حرف یا اشارہ بھارتی حکمرانوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا تو اقوام متحدہ کے حکام اس قرار داد پر نظر ثانی کر کے اسے بھارتی حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق بنانے میں لمحوں کی تاخیر نہ کرتے۔ اسی عالم میں اقوام متحدہ نے 5جنوری 1949 ء کی قرار داد منظور کی جس میں پاکستان اور بھارت کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے بین الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی ۔ اس قرار داد کو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی حمایت حاصل تھی ۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد ہی دونوں ملکوں میں جنگ بندی ہو ئی لیکن جنگ بند نے کے باوجود اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل دار آمد نہ کرا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قراردادوں پر بھارت نے واشگاف طریقے سے عمل در آمد کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ وقت یوں ہی گزرتا چلا گیا، پاکستان اور بھارت میں کشمیر ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود رہا ۔ دونوں کے مابین1965ء کی جنگ ہوئی پھر1971ء میں دونوں ملک خونین تصادم سے گزرے ، کارگل کی جنگ امریکی مداخلت سے ختم ہوئی۔ دونوں ممالک نے ایٹمی دھماکے کر کے جہاں خطے میں طاقت کا توازن قائم کیا وہیں جنوبی ایشیا میں تباہ کن صورت حال کے خدشات کو بھی نمایاں کیا ۔ کشمیریوںکے بعد جن قوموں نے حق خود ارادیت کی جدوجہد شروع کی انہیں اقوام متحدہ کے زیر سایہ منزل مراد مل گئی ۔ جنوبی سوڈن اورمشرقی تیمور اس سلسلے میں ایک اہم مثالیں ہیں ۔انڈونیشیا ایک اہم مسلمان ملک ہے ،اس کے ایک جزیرے مشرقی تیمور میں خالصتاََ مسیحی عوام کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کاحق دیاگیا اوراس طرح مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کردیاگیا۔جبکہ سوڈان میں بھی مسیحوں کو ریفرنڈم کاحق دیاگیا اس اس طرح سوڈان کودوپہاڑ کرکے جنوبی سوڈان کوایک الگ ملک بنادیاگیا۔چونکہ کشمیرخالصتاَ مسلمانوں کامسئلہ ہے اس لئے یہاں 72برس گذرنے کے باوجودکشمیری عوام کو ریفرنڈم کے حق سے محروم رکھاگیا۔