تاریخی طور پر دیکھیں تو ہمارے ہاں کبھی انتخابات منصفانہ،غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوئے ہیں اور نہ ہی کوئی حکومت عوام کی نمائندہ مانی گئی ہے بھلے وہ میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ سب کچھ مشکوک بنانے والے ہمیشہ جمہوری عمل پر بظاہر یقین رکھنے والے اسکاحصہ بننے والے، انتخابات میں حصہ لینے، کئی بار حکومتیں کرنے والے سیاستدان ہیں۔ جنہوں نے انتخابی عمل کے بارے میں ہارنے کے بعد بہت واویلا کیا لیکن اسکی اصلاح کے لئے جب بھی موقع ملا کچھ نہیں کیا بلکہ اس کو اپنے حق میں ناجائز طور پر استعمال کیا۔ اسی طرح سے پارلیمان کی تشکیل کے بعد ہر حکومت نے واویلا کیا کہ سارے سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں لیکن جیسے ہی اپوزیشن میں آئے پوری کوشش کی کہ پارلیمنٹ فعال نہ رہے اور کسی نہ کسی طور حکومت کو وقت سے پہلے گھر بھیجا جائے۔ نوًے کی دہائی میں جو چوہے بلی کا کھیل کھیلا جاتا رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ایک حکومت کو اگر کرپشن پر گھر بھیجا جاتا تھا تو اپوزیشن اس وقت صدر پاکستان کے حکومت بر طرف کرنے کے اختیارات کا بھر پور دفاع کرتی تھی۔محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت صدرغلام اسحٰق خان نے رخصت کی تو مسلم لیگ اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے خوب بغلیں بجائیں اور صدر کے حکومت برطرف کرنے کے اختیارات کو سیفٹی والو قرار دیا کہ اگر یہ نہ ہو تو ایسی بدمعاش حکومت مارشل لاء لگوا سکتی تھی۔ پھر جب میاں نواز شریف اسی آئینی اختیار کا صدرغلام اسحٰق خان کے ہاتھوں 1993 ء میں نشانہ بنے تو انکی سوچ با لکل مختلف ہو گئی ۔ لیکن جب صدر فاروق لغاری نے اپنی منہ بولی بہن جس نے اسے صدر بنایا تھا کی حکومت 1996 ء میں رخصت کی تو پھر میاں نواز شریف نے بغلیں بجائیں کیونکہ انکو علم تھا کہ اسکے نتیجے میں انکی حکومت بننے جا رہی ہے۔ لیکن جو کچھ وہ 1993 ء میں سوچ چکے تھے وہ کر دکھایا۔ جس کو وہ سیفٹی والو قرار دیتے وہ صدارتی اختیار انہوں نے آئین سے اکھاڑ پھینکا ۔ اسکے بعد انہوں نے ایسے کشتوں کے پشتے لگائے کہ خدا کی پناہ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے لیکر آرمی چیف جنرل جہانگیرکرامت تک کوئی انکے ہاتھ سے محفوظ نہیں رہا۔ اپوزیشن میں موجود سیاستدان تو ویسے ہی حکومت کے نشانے پر ہوتے ہیں لیکن انہوں نے خصوصی احتساب سیل بنایا، محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف نہ صرف کرپشن کے مقدمات دنوں میں بنائے بلکہ عدلیہ سے انکو سزا دلوانے کے لئے ججوں کو استعمال بھی کیا۔ جسٹس قیوم سے اس بارے میں میاں شہباز شریف اور سیف الرحمن کی فون پر گفتگو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔لیکن میاں صاحب اپنی کہی ہوئی بات شاید بھول گئے کہ صدر کا حکومت ہٹانے کا اختیار سیفٹی والو ہے۔ اور پھر وہی ہوا ،انہوں نے زعم میں بم کو لات مار دی اور نتیجہ 1999 ء میں مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوا۔1988ء میں جنرل ضیاء کی رخصتی کے بعد جمہوریت کا سفر شروع ہوا۔1999ء تک پانچ سال کے لئے منتخب ہونے والی چار حکومتیںدو سے تین سا ل مشکل سے پورے کر سکیں۔لیکن الزام اسٹیبلشمنٹ کے سر جڑ دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے اپنے ایک انٹر ویو میں اس بات کا اقرار کیا کہ انہیں خفیہ ایجنسی پیپلز پارٹی کی قیادت کے حوالے سے گمراہ کرتی رہی۔ گویا وطن عزیز میں آج تک جتنے سیاستدان گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں اور شاید جو آئیں گے وہ سارے دودھ پیتے بچے ہیں جنکو اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر لیتی ہے اور انکو پتہ ہی نہیں چلتا۔چلیں مان لیتے ہیں 1985ء کے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے زیادہ تر نابالغ سیاستدان پارلیمنٹ میں آ گئے انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ انہیں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور پھر ہمیں بتایا گیا کہ تمام سیاسی قائدین نے ماضی سے بہت سبق سیکھا ہے اور آئندہ وہ کبھی کسی غیر سیاسی قوت کے آلہء کار نہیں بنیں گے۔ ساری سیاسی جماعتیں سوائے مسلم لیگ (ق) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور مہینوں کی عرق ریزی سے میثاق جمہوریت تیار کیا جس پر لندن میں 2006 ء مئی میں دستخط کرنے کی ایک عالیشان تقریب ہوئی۔اس میثاق میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انکے قائدین کسی طور بھی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہیں رکھیں گی اور نہ ہی کسی فوجی عہدیدار سے ملیں گے۔ ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پیپلز پارٹی نے جنرل مشرف سے قومی مفاہمتی آرڈر حاصل کر لیا جس کے نتیجے میں محترمہ بینظیر بھٹو وطن واپس تشریف لائیں زندگی نے وفا نہ کی اور وہ شہید ہوگئیں لیکن اس این آر او کے نتیجے میں انکی جماعت اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی پیچھے نہیں رہی اور جیسے ہی موقع ملا پیپلز پارٹی کے خلاف میمو گیٹ کیس میںمیاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے ۔ یہ ساری تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں سیاسی مدّو جذر میں کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔وجہ اسکی یہ ہے کہ جب سیاستدا ن ہر بارحکومت بنتے ہی پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر لگ جائیں تو پھر ہر کسی کے لئے موقعہ ہوتا ہے کہ وہ اس چپقلش سے بھرپور فائد اٹھائے۔میری دست بستہ عرض ہے ان دودھ پیتے کارزار سیاست کے بچوں سے کہ وہ ایک بار پانچ سال کے لئے یہ طے کر لیں کہ کسی کی بھی حکومت ہو، جو بھی حالات ہوں وہ پارلیمنٹ کے اندر ہر مسئلہ حل کریں گے اسکو مضبوط بنائیں گے۔ عوامی ، قانونی، معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے پالیسی سازی کریں گے۔یقین رکھیں کسی ادارے کو جرأت ہو گی نہ ضرورت ہو گی کہ وہ سیاسی جوڑ توڑ میں الجھیں۔بھر پور انتخابی اصلاحات کریں تا کہ عوام کو اپنے ووٹ سے حکومتیں منتخب کرنے پر یقین ہو ۔