بے جی گاؤں سے باہر جاتیں تو برقع اوڑھتیں اور پردہ کرتیں۔اسے شٹل کاک برقع کہا جاتا تھا۔اب شاید وہ برقع کسی عجائب گھر کی زینت ہو۔ ویسا برقع دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ بے جی وہ برقع پہنتیں تو سر تا پا سارا جسم ڈھک جاتا۔ برقع کے سر پر ایک ٹوپی ہوتی تھی اسی لیے اسے ٹوپی برقع بھی کہا جاتا تھا۔بے جی وہ برقع پہنتیں تو وقار اور آرام سے چلتیں۔بڑی بہن بھی ٹوپی برقع اوڑھتیں۔ایک دفعہ شرارت سے چھوٹی بہن نے وہ برقع پہنا تو ایک قدم چلنا کیا پاؤں اٹھانا دوبھر ہو گیا۔بے جی برقع اوڑھتیں تو باوقار لگتیں والد شیروانی پہنتے تو بارعب لگتے۔ہمارے کسی کلاس فیلو کے والد نہ ایسی شیروانی پہنتے نہ کسی کی والدہ ٹوپی برقع پہنتیں۔والد کو شیروانی میں اور طرے والی پگڑی میں دیکھ کر ہم بہت خوش ہوتے۔گاؤں میں ایک ٹیلر تھے ان کو ماسٹر صاحب کہا جاتا تھا۔وہ اچکن اور واسکٹ سینے میں کمال مہارت رکھتے تھے وہی ماسٹر یہی برقع سیتے۔بے جی کے برقع میں آنکھوں کے سامنے ایک جالی ہوتی اور اس کے چوگرد پھول کڑھے ہوتے۔ہمیں تو دور سے لگتا کہ اس برقع میں انہیں کچھ نہیں دکھتا ہو گا مگر وہ ڈیڑھ کلومیٹر دور ریلوے اسٹیشن سے خراماں خراماں چلتے گھر پہنچ جاتیں۔گاؤں نزدیک آتا تو وہ برقع اتار دیتیں۔ گویا گاؤں کے لوگوں سے کوئی پردہ نہیں تھا۔ایک دفعہ ہم ان کے ساتھ بڑی بہن کے گھر گئے تو اس گھر میں کسی جب غیر رشتہ دار کے گھر میں داخل ہونے کا پتہ چلتا تو وہیں برقع اوڑھ کر چر مر ہو کر بیٹھ گئیں جیسے وہاں صرف برقع پڑا ہو وہ خود نہ ہوں۔برقع میں بولنا تک موقوف کر دیا۔اس غیر رشتہ دار کے گھر سے باہر نکلنے تک وہ ایسے ہی چْر مْر بیٹھیں رہتیں۔ ایک ہی برقع تھا وہی بارہ مہینے سردیوں گرمیوں میں استعمال ہوتا۔نہ ہم نے کبھی پوچھا کہ اس میں گرمی لگتی ہے یا نہیں نہ انہوں نے کبھی اس کا اظہار کیا۔ جس گھر میں ہم نے آنکھ کھولی وہ ایک کچا پکا گھر تھا۔ یعنی گھر کی باہر کی دیواریں دروازے تین سٹیپز کی دہلیز سب پکی اینٹوں کی تھیں مگر تینوں کمروں کی پچھلی دیواریں اور چھت کچی مٹی کی تھے۔جن کی ہر سال لپائی کی جاتی تھی۔صحن میں تلن دی جاتی تھی۔تلن اس زمانے کی ماسٹر ٹائل تھی۔تلن خشک ہونے لگتی تو وہ الٹے کٹورے سے برابر کی جاتی وہی طلا یعنی سونے جیسی ہو جاتی اور تلن کہلاتی۔ سال میں ایک دفعہ دیواروں پر چونے کی پھرائی ہوتی۔ شہر سے خاص طور پر چونے منگوایا جاتا ان کو مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں رات کو بھگو دیا جاتا۔یہ سارا کام بے جی اپنی نگرانی میں کراتیں۔ہمارے دو گھر تھے ایک چھوٹا سا گڑیا کا گھر جس میں ہم بے جی اور چھوٹی بہن رہتیں۔دوسرا گھر جسے والد صاحب کی بیٹھک کہنا زیادہ مناسب ہے۔وہاں والد ان کے ایک دو ملازم اور مہمان رہتے۔چھوٹے سے گھر کا صحن کچا تھا۔بارش ہوتی تو چکنی مٹی کی وجہ سے ہر وقت پھسلنے کا خدشہ لاحق رہتا تھا۔ اس کے لیے بے جی صحن میں ایک ایک قدم پر اینٹیں رکھ دیتیں۔ ہم سب ان اینٹوں پر ڈولتے ہوئے پاؤں رکھتے۔ بارش میں بار کی زرخیز سرخ مٹی اور سرخ ہو جاتی اور ایسی پھسلن ہو جاتی کہ کہیں پاؤں ٹکتا ہی نہیں تھا۔صحن کی ایک طرف سیڑھیاں تھیں انہی سیڑھیوں کے خم میں بے جی کا باورچی خانہ تھا۔دو قدم کے فاصلے پر ایک گھڑونچی تھی جس پر تازہ پانی کے دو گھڑے رکھے ہوتے تھے۔ایک گھڑے کے گوگے یعنی ڈھکنے میں پانی بھر دیا جاتا تھا جس پر ہر وقت ایک آدھ چڑیا موجود ہوتی تھی۔سیڑھیوں کے خم میں بنے کچن میں ایک عدد چولہا ایک بھاری توا ایک صحنک اور ایک مٹی کی ہانڈی ہوتی تھی۔یہی اس بخت بلند خاتون کا کل اثاثہ تھا جس سے اس گھر تمام افراد کو عین وقت پر کھانا ملتا۔یہ کبھی ہوا ہی نہیں کہ کھانا وقت پر تیار نہ ہوا ہو۔سب سے پہلے ملازم کی روٹی پکتی بعد میں ہم بہن بھائیوں کی پھر والد کی اور آخر میں بچے کھچے آٹے سے اپنی روٹی پکاتیں۔یہی ساری زندگی دستور رہا۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ ملازم کی روٹی آخر میں پکے۔آخر میں بے جی کی ہی روٹی پکتی۔روٹی توے پر ڈلتی تو ان کی آنکھیں چھلک چھلک جاتیں۔ ہمارا لقمہ حلق سے نیچے نہ اترتا ایک پھانس بن جاتا۔بے جی لقمہ اٹھاتیں پھر نیچے رکھتیں پھر اٹھاتیں اور سسکیوں لینے لگتیں۔پھر دھیمی زبان میں بین کرنے لگتیں پتہ نہ چلتا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔یہ کوئی ایسی زبان تھی جو لفظوں سے ماورا تھی۔سمجھ نہ آتا کہ وہ نیک خاتون کیوں رو رہی ہیں۔ہم بھی ان کے ساتھ رونے لگتے۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ طاعون کی وبا میں ہمارے تین ماموں ایک آدھ دن کے وقفے سے انتقال کر گئے تھے۔کہتیں اس دن میانہ گوندل میں سعی محمد کا میلہ تھا۔ وہ کہتیں اس دن سعی محمد کا میلہ تھا تمہارے ماموں نے نیلے رنگ کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ریشمی کپڑے کی واسکٹ چمکتی ہوئی نیلے رنگ کی واسکٹ۔میلے میں ہی اس کی وفات ہو گئی۔تمہارے نانا ہاتھوں پر اٹھا کر اس کی میت لے کر گھر میں داخل ہوئے تو ہم سمجھیں کہ بھائی سو رہا ہے۔مگر وہ تو میت تھی بھائی کی میت۔تمہارا ماموں اس وقت چار سال کا تھا۔ اتنے میں والد کے گھر میں داخل ہونے کا پتہ چلتا بی جی جیسے اپنے خوابوں سسکیوں اور یادوں کی دنیا سے باہر آ جاتیں۔والد کے گھر میں داخل ہوتے تو ہر چیز نارمل ہو جاتی۔ چارپائی لگ جاتی اس کے اوپر کھیس بچھ جاتا۔پھولوں سے کڑھا ہوا تکیہ چارپائی پر جیسے سجا دیا جاتا ایک ملازم فرشی حقہ چارپائی کی دائیں جانب رکھ دیتا۔والد آتے مگر کوئی شور نہیں کوئی رولا گولا نہیں بے جی اپنے برتاؤ اور رویے سے ظاہر کر دیتیں کہ اب گھر میں ان کی نہیں والد کی حکم رانی ہے۔ایسے انداز کو سلام۔(جاری ہے)