چلیے چھوڑیے اس نہ ختم ہونے والی بحث کو جس نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے جنم لیا ہے۔ اس فیصلے کے بے شمار پہلوئوں پر گھنٹوں بحث ہو چکی، بحث کے اکثر حصے منطق اور دلائل سے عاری ہیں۔ضد اور انا بھیس بدل بدل کر دلائل کا روپ دھار رہے ہیں۔’’میں نہ مانوں‘‘ اس بحث کا مرکزی نکتہ ہے۔دھونس اور دھمکی اب دلیل پر غالب آچکی ہے۔سو اس بحث میںمزید کودنے کا کیا فائدہ ؟ میں ایک مختلف موضوع پر بات کرنے کا بہانہ تلاش کررہاہوں تاکہ ُاس بحث سے پہلو تہی کر سکوں جسے سن سن کے ذہن تھک گیا ہے ۔لہذا سپریم کورٹ میں ایک ہفتے تک صبح گیارہ سے شام چار بجے تک بھاری بھرکم دلائل سن کے رپورٹ کرنے والے جانبازوں کی ہمت کو داد دینا چاہتا ہوں۔ دیکھنے اور سننے والوں نے کبھی غور نہ کیا ہو گا لیکن یقین کیجیے یہ آسان کام نہیں ۔ ایک تو اہم کیس کی سماعت کے دوران ہر دوسرے تیسرے دن سپریم کورٹ کے دروازے پر چند اہلکار ایک نئی فہرست لیے کھڑے ہوتے ہیںکہ یہی صحافی آج اندر جا سکتے ہیںباقیوں کو اجازت نہیں۔یہ فہرست یوں تو یوٹیوبرز کی یلغار کو روکنے کے لیے بنائی جاتی ہے لیکن اس کی زد میں اکثر وہ اینکرز بھی آ جاتے ہیں جو معمول کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر عدالت نہیں آتے۔ یوں کبھی ہم جیسوں کا نام اس فہرست میں موجود ہوتا ہے جس سے داخلے میں آسانی ہو جاتی ہے اور کبھی شامل نہیں ہوتا جس کے لیے دوڑ بھاگ کر کے اجازت لینا پڑتی ہے۔اکثر اوقات اس مشکل سے نمٹنے کے لیے وہ افراد جوبیٹ رپورٹرز کی فہرست میں نہیں آتے ،انہیںآدھا گھنٹہ پہلے پہنچ کر ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ہر اہم کیس کی سماعت کے موقع پر ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ داخلے کی اجازت ملنے کے بعد اندر والے اہلکار ایک نئی ضد لگا لیتے ہیں ،’’ کمرہ عدالت میں بہت رش ہو گیا ہے آپ دوسرے کمرے میں بیٹھ کے سماعت سن لیں‘‘۔ مگر ججز کے چہرے کے تاثرات اور کمرے کا ماحول کیسے دیکھیں گے۔اس بحث و تکرار میں آپ ہار جائیں تو کمرہ نمبر سات میں بیٹھ کر صرف آواز پہ انحصار کرنا پڑتا ہے ،اور جیت کر آپ سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں تو چیلنجز الگ ہیں ۔ سپریم کورٹ کے سب سے بڑے کمرہ نمبر ایک میں صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے ایک میز اور چار کرسیاں ہیںجہاں ججز اور وکلا کی آوازسننے کے لیے میز پر دو چھوٹے سپیکرز لگے ہوئے ہیں ۔ فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے پہنچنے والے چار رپورٹرز پانچویں کو بھی اپنے ساتھ ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔ باقی سب کو دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر کارروائی نوٹ کرنا ہوتی ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ دھمیے مزاج کے چند ججز اتنا آہستہ بولتے ہیں کہ ان کی آواز جنرل سپیکرز سے سننا اور سمجھنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔یوں اکثر ریمارکس مِس ہو جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لہذا کھڑے ہوئے صحافیوں کے لیے ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ وہ پہلے سے بیٹھے ہوئے پانچ صحافیوں کے مقابل کھڑے ہو کر میز پر جھک جائیں اور رکوع کی حالت میں گھنٹوں کھڑے رہ کر مسلسل لکھتے رہیں ۔ایسے صحافیوں کی حالت پہ رحم کھانے کو دل چاہتا ہے۔ اکثر تو خود مجھے اپنے اوپر بھی رحم آ رہا ہوتا ہے جب رکوع میں گئے مسلسل کئی گھنٹے ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایک بار عدالت میں ایک ملازم نے مجھے اشارہ کیا اورترس کھا کے اپنے سٹول پہ بیٹھنے کے لیے آدھی جگہ دیتے ہو خود تھوڑا سائیڈ پہ کھسک گیا۔کان میں کہنے لگا میں بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی بس ہو گئی ہے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد جسٹس منیب اختر نے بولنا شروع کیا تو مجھے بھاگ کے پھر اسی میز پہ جا کر جھکنا پڑا جہاں میں پہلے کھڑ ا تھا۔ جسٹس منیب بہت آہستہ بولتے ہیں۔ہم سپیکر سے ذرا بھی ہٹ جائیں تو ان کی بات سمجھ نہیں آتی۔ چار سے پانچ گھنٹے کی سماعت میں رپورٹ کرنے والے صحافی کو مسلسل لکھنا ہوتا ہے۔ہر لمحے عدالت میں ایک شخص ضرور بول رہا ہوتا ہے۔ یا دلائل دینے والا وکیل بول رہا ہے یا پھر جج۔یوں وکیل یا جج کو تو وقفہ مل جاتا ہے لیکن صحافی نے چونکہ دونوں کے نکات نوٹ کرنے ہوتے ہیں اس لیے اسے کوئی وقفہ نہیں ملتا۔ اس کا قلم بے تھکان چلتا ہے۔ججز کے بولنے کی رفتار سے قلم کی رفتار کو میچ کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ بعض اوقات تومحسوس ہوتا ہے شارٹ ہنڈ رائٹنگ سیکھنی چاہیے تھی۔ کمرہ عدالت میں فون لیجانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ججز کے ریمارکس کو ساتھ ساتھ رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔اس کے لیے صحافیوں نے ایک طریقہ کار بنا رکھا ہے۔ہر رپورٹر کے ساتھ مزید دو رپورٹر ڈیوٹی پر مامور کیے جاتے ہیں۔کمرہ عدالت میںہر تھوڑی دیر بعد ایک رپورٹر داخل ہو کر اپنے ساتھی سے تحریر کردہ نکات باہر لے جاتا ہے، باہر جمع کرائے گئے موبائل کو واپس حاصل کرنے کے بعد کاغذ پہ لکھے گئے نکات کو موبائل میں ٹائپ کر کے دفتر بھجواتا ہے تا کہ ٹکرز چلائے جا سکیں اور پھر وہ پرچہ عدالت کے باہر کیمرے پر کھڑے اپنے تیسرے رپورٹر کو دے دیتا ہے تاکہ وہ اسے کیمرے پر رپورٹ کر سکے۔یہ کرنے کے بعد وہ رپورٹر دوبارہ کمرہ عدالت میں جاتا ہے جہاں مزید ریمارکس پر مشتمل ایک اور پرچہ تیار ہو چکا ہوتا ہے۔ یوں عدالتی کارروائی عوام تک پہنچتی ہے۔ اس سار ے مرحلے کے دوران ہر رپورٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک بھی اہم لفظ رپورٹ ہونے سے رہ نہ جائے اور کوئی بات غلط نہ چلی جائے ۔اس کے باوجود الگ الگ ٹکرز کو جوڑ کر پڑھنے والے غلط تاثر لے لیتے ہیں جس کے لیے رپورٹرز کو شام کے پروگرام میں بٹھا کر ان سے آنکھوں دیکھاحال سننا چاہیے۔ بعض اینکرز رپورٹرز کو بٹھاتے ہیں اور اکثر خود ہی تبصرے کرتے رہتے ہیں جس سے غلطی کا امکان رہتا ہے۔ لہذا دن بھر جہاد کرنے والے رپورٹرز کو اگر ہمارے اینکر دوست اپنے پروگرام میں تھوڑی سی جگہ دیں تو اس سے ایک تو عدالتی کارروائی کا صحیح احوال عوام کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور دوسرا دن بھر کام کرنے والے رپورٹر کی عزت افزائی بھی ہو جائے گی۔