وزارت خزانہ کے ماہرین نئے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ یہ پی ڈی ایم حکومت کا دوسرا بجٹ ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر اسحاق ڈار کو لایا گیا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب پاکستان کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ موجودہ وفاقی بجٹ تاجر اور کاروبار دوست ہو گا۔ تاجر اور کاروبار دوست ہونا بھی اچھی بات ہے مگر غریبوں کی بات کون کرے گا؟ جو کہ اس مہنگائی میں بری طرح کچلے گئے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ معاشی لحاظ سے سابقہ دور برا تھا تو موجودہ دور بد ترین ثابت ہوا ہے۔ کسی ایسے بجٹ کی حمایت نہیں کی جا سکتی جو غریب دوست نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اپنا دوسرا بجٹ اس حالت میں دینے جا رہی ہے کہ ملک بد ترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ شرح نمو خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ یہ معاشی بحران ایسا نہیں کہ کسی کو نظر نہ آتا ہو۔ خود وزیر اعظم اور کابینہ کے وزراء بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے مگر مشکلات کا حل کیا ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں۔ ترکی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ترک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی کیلئے پاکستانی ایکسپورٹ کا حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی دوست ملک ہے، پاکستان سے ہمدردی بھی رکھتا ہے۔ ترکی، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سخت مالی مشکلات کا شکار ہے۔ ملک کی برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ٹیکسٹائل برآمدات میں تین ارب ڈالر تک کی کمی ہو چکی ہے۔ معاشی حالت بہترکرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔ سیاسی افراتفری نہ ہو، مگر پاکستان میں تو باقاعدہ سیاسی جنگ ہو رہی ہے۔ اس بناء پر کس طرح صنعتی ترقی ہو؟ جب صنعتی ترقی نہیں ہو گی تو برآمدات کا خواب کیسے پورا ہو گا؟ پاکستان کاٹن برآمد کرنے والا ملک تھا مگر کاٹن برباد ہو گئی۔ وسیب جو سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا علاقہ تھا، کسان دشمن زرعی پالیسیوں نے زرعی پیداوار خصوصاً کپاس کی پیداوار کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی سے زرمبادلہ کی قلت کا امکان ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی معیشت اور روزی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اقتدار پرستوں کو اقتدار کی لڑائی سے فرصت نہیں۔ قومی معاملات پیچھے چلے گئے ہیں۔ پاکستان کو تیزی کے ساتھ ایک بھکاری ملک بنایا جا رہا ہے۔ ملک میں فاقہ کشی کی صورتحال ہے۔ ملک بھر سے خبریں آتی رہتی ہیں مگر وسیب میں ہر آئے روز خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ لوگ غربت سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ روٹی بیس سے پچیس روپے تک چلی گئی ہے۔ کیا حکمرانوں کو اُس وقت خیال آئے گا جب 80 گرام کی روٹی 50 روپے میں ملے گی؟ تندور والے کہتے ہیں کہ آٹے کا بحران ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان جسے زرعی ملک میں جب گندم ابھی کھلیانوں سے اٹھائی جا رہی ہے۔ آٹے کا بحران ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت کی نا اہلی، کمزوری اور افسر شاہی کی ملی بھگت سے ذخیرہ اندوزوں نے گندم چھپائی ہے اور اب وہ پورا سال عوام کو ترسا ترسا کر گندم نکالیں گے۔ اس ظلم کے خلاف لوگوں کو خود آواز بلند کرنا ہو گی کہ حکومت کی چھوٹ سے ہی ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے۔ ہر دور میں غریب کو لوٹا جاتا ہے۔ غریبوں کی بھلائی کی صرف باتیں ہوتی ہیں۔ عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ سیاسی نعرے سن سن کر لوگ تھک گئے ہیں۔ وسیب کے لوگ حیران ہیں کہ گندم کی بمپر کراپ کے باوجود ابھی سے آٹے کا بحران ہے۔ معاملہ صرف گندم کا نہیںپٹرول اور بجلی تک ہر سمت اشرافیہ پر مشتمل مافیاز ہیں جو عوام کا خون نچوڑنے میں مکمل آزاد ہیں۔ ہر طرف ظلم کا دور دورہ ہے۔حکومت کیا کر رہی ہے؟ ہر شخص ایک دوسرے سے یہی پوچھتا ہے کہ اپنی بقاء کی جنگ لڑتی ہوئی حکومت میںاتنی سکت ہی نہیں کہ وہ ان مجرموں کا ہاتھ روک سکے، ایسے میں وزیر اعظم کی جانب سے ریلیف کی ہدایت بھی محض اشک شوئی ہی دکھائی دیتی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان مل بیٹھیں اور مقتدر قوتیں قوم اور ملک کی بہتری کیلئے سوچیں۔ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان الگ الگ نظر آرہے ہیں۔ ایک پیج پر نہیں ہیں۔ یہ گھمبیر مستقبل کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔ حادثہ کبھی ایک دم نہیں ہوتا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے بجٹ کے حوالے سے درست باتیں کی ہیں اور کہا ہے کہ بلوچستان کی محرومی اور پسماندگی کو دور کرنے کیلئے مرکز سے وسائل مہیا کئے جائیں اور این ایف سی ایوارڈ کا حصہ دینے کے ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی کی جائے۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں وسیب کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتیں بھی بجٹ میں نظر انداز کرتی ہیں۔ مرکز اور صوبے کی نگران کابینہ میں بھی وسیب کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ سی پیک سے وسیب کی محرومی سوالیہ نشان ہے۔ کمشنر بہاولپور نے گزشتہ روز خود اعتراف کیا کہ سی پیک سے بہاولپور کو نظر انداز کرکے زیادتی کی گئی۔ وزیر اعظم نے بہاولنگر کو لاہور تک سی پیک سے لنک دینے کیلئے 192 کلو میٹر روڈ کی منظوری دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہاولپور ایک مرتبہ پھر محروم ہو گیا۔ سی پیک سے لنک دینا ہے تو اوچ یا جھانگڑہ انٹرچینج سے موٹروے بہاولپور اور بہاولنگر تک تعمیر کی جائے تاکہ بہاولنگر کے ساتھ بہاولپور بھی محروم نہ رہے۔ وسیب میں ایک عرصہ سے معاشی المیہ جنم لے چکا ہے۔ بیروزگاری سے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ چوری اور سٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں اور پریشانیوں سے نوجوان نشے کر رہے ہیں۔ بجٹ بنانے والوں کو ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کے محروم ساتھ اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔