یہ دو فروری 2002ء کا سرد دن تھاجب رحیم یار خان کے نواحی علاقے بستی رانجھے خان میں تہرے قتل کی اندوہناک واردات ہوئی ،تھانے میں درج رپورٹ کے مطابق چار سگے بھائیوں نے غیرت کے نام پراپنی بہن سلمیٰ اور ہمسائے کے پڑوسی عبدالقادراور اسکے بیٹے کو قتل کر دیا تھا،تہرے قتل کا واقعہ چھوٹا تو نہ تھاپھر ایسے واقعات میں ملزمان بھاگتے بھی کم ہی ہیں اس لئے پولیس کو ملزمان کی گرفتار ی میں زیادہ تگ و دو نہ کرنی پڑی ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی مقدمہ چلنے لگا معاملہ تہر ے قتل کا تھا اس لئے یہاں ’’انصاف ‘‘ میں زیادہ تاخیر نہ ہوئی ٹرائل کورٹ نے دو ملزمان غلام قادر اور غلام سرور کو تین تین بار سزائے موت سنادی۔ ملزمان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور اپیلیں دائر کر دیں عدالتوں میںمقدموں کی اپنی رفتار ہوتی ہے کس مقدمے کو ہرن کی طرح قلانچیں بھرنی ہیں اور کس کی سماعت کھچوے کی طرح ہونی ہے اسکا اپنا ایک نظام ہے جسے وکلاء صاحبان اور عدالتی عملہ اچھی طرح جانتا ہے لیکن یہاںمعاملہ دو انسانی زندگیوںکا بھی تھا یہ کسی نہ کسی طرح فل کورٹ بنچ تک پہنچ ہی گیا سابق چیف جسٹس سعید کھوسہ صاحب نے اس کیس کی فائل دیکھی اور نشاندہی کی کہ مقدمے میں موقع کا گواہ کہہ رہاہے کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچا تو دونوں افراد قتل ہوچکے تھے یہ واضح تضاد تھا عدالت نے سوال اٹھایا کہ جن ثبوتوں کی بنیاد پردیگر چھ ملزمان کو بری کیا جا چکا ہے ان کی بنیاد پر دو ملزمان کو کیسے سزا دی جاسکتی ہے۔ عدالت نے ازخود نوٹس لے کر اگلے دن تک مقدمے کی سماعت ملتوی کردی اور اگلے روزجب مقدمے میں ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا فیصلہ سنایا گیا تو پتہ چلا کہ دونوں بھائیوں کو ایک سال پہلے 13اکتوبر 2015ء کو پھانسی دی جاچکی ہے ۔ یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا جب ہمارے نظام انصاف پر سوال اٹھاہوگزشتہ برس مارچ میں ادھیڑ عمر کی رانی بی بی کو جیل کی سلاخوں سے رہائی ملی او ر اس نے آزاد فضا میں سانس لیا ،رانی پر اپنے شوہر کے قتل کا الزام تھا اس الزام میں اس کے دو بھائیوں اور والدکو دس برس کی سزا سنائی گئی اور 2015ء میں لاہور ہائی کورٹ نے اسی بنیاد پر اسکی درخواست ضمانت بھی مسترد کردی تھی کہ چونکہ اس جرم میں دیگر مجرموں نے سزا پوری کی ہے تو اسے بھی سزا کاٹنی ہوگی لیکن اپیل کے دو برس بعد 2017ء میں رانی بی بی کو بری کردیا گیا وہ جب جیل لائی گئی تھی اسکی عمر چودہ برس تھی اور اب جب وہ اس چار دیواری سے باہر نکل رہی تھی تو اسکی عمر ڈھل چکی تھی رانی بی بی ہی کی طرح لاہور کے سہیل عمانوائیل نے ایک قتل کے الزام میںکئی برس قید کاٹی بلآخر اسے عدالت نے ثبوت کی عدم موجودگی پر رہا تو کردیا لیکن اسکی زندگی کے پندرہ برس جیل کی چاردیواری میںگم ہو گئے۔ اسماء نواب کیس سے کراچی کے پرانے کرائم رپورٹراچھی طرح واقف ہوں گے ،تہرے قتل کے اس مقدمے میں اسماء نواب پر آشنا کی مدد سے اپنے ماں باپ اور بھائی کے قتل کا الزام تھا الزام کا یہ داغ دھونے میں اسماء کو بیس برس لگے بیس برس بعد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے اسماء نواب کو باعزت بری کردیا لیکن کسی کے پاس ان بیس برسوں کو حساب نہ تھا جو اسماء نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹے۔۔۔بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ سب ہمارے نظام انصاف کا وہ تاریک گوشہ ہے جس میں غریب ملزم گم ہوجاتا ہے لیکن اگر ملزم کوئی بااثر شخصیت ہو تو ہمارے نظام انصاف کے یہ اندھیرے چھٹ جاتے ہیں وہ منصفوں کو ریل گاڑی میں ساتھ سفر کرنے والے مسافروں کی طرح تین فٹ کے فاصلے پر سامنے دکھائی دینے لگتا ہے دور کیوں جاتے ہیں ایک بیمار شخص کے بیرون علاج کے لئے ہمارے نظام انصاف میں ہونے والی پھرتیاں کسے یاد نہیں َ؟ یہا ں نیوز چینلوں کی اسکرین پرپلٹ لٹس گرنے کی ’’پٹیاں ‘‘ اور بریکنگ نیوز کے گھومتے ڈبے تھے اور وہاں عدالت کی غیر معمولی نان سٹاپ سماعتیں تھیں،بالآخر عدالت نے ایک عمر رسیدہ مجرم کی زندگی بچانے کے لئے اسے بیرون ملک جانے اور علاج کی سہولت دے کر ایک بار پھر ہمارے نظام انصاف کی بولعجبی پر خود ہی سوال اٹھا دیئے۔ اسماعیل گلالئی کو بھی عدالت نے خیر سے باعزت بری کر دیا ہے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرم رہنما گلالئی اسماعیل کے خلاف اسلام آباد میں فرشتہ نامی بچی کے ریپ اورقتل کے بعد اشتعال دلانے اورفوج کے خلاف کی گئی تقریرپر مقامی تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا،بنی گالہ کے قریب غریبوں کی ایک بستی میں معصوم فرشتہ کو اسکے پڑوسی نے اغواء کے بعد عصمت دری کرکے قتل ڈالا تھا اور لاش جنگل میں پھینک دی تھی فرشتہ ایک پشتون محنت کش کی بیٹی تھی جس کا اسلام آباد میں قتل پی ٹی ایم کے لئے بہت ’’خاص ‘‘ ہو چکاتھا اس نے اس واقعے کو لسانی رنگ دینے کی پوری کوشش کی اور اس کوشش میں اسماعیل گلالئی صاحبہ نے اپنی شعلہ بیانی سے پورا پورا حصہ ڈالابلکہ دو قدم آگے بڑھ کر فوج کے خلاف نعرے بھی لگوا دیئے ایک مظلوم بچی جسکا کسی نے ریپ کیا قتل کیااسکا کوئی ملزم کیا پکڑا جاتا ابھی تو اس معصوم کی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی اورگلالئی صاحبہ نے سخت کشیدہ صورتحال میں فوج کو لتاڑنا شروع کردیاتھا انکی شعلہ بیانی کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر آج بھی موجود ہے البتہ گلالئی صاحبہ یہاں موجود نہیں وہ یہاں سے ایسی نکال لی گئیں جیسے مکھن سے بال ۔۔۔انکے خلاف یہ مقدمہ چلا اورحیرت انگیز طور پر سال بھر میں ہی مقدمے کا فیصلہ ہوگیا انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کی شعلہ بیانی کو ’’اظہار رائے کا حق‘‘ قرار دے کر نظر انداز کردیااور کہا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میںکوئی ثبوت ہے تو پیش کئے جائیں جو پیش نہ ہوسکے اور گلالئی صاحبہ جو پہلے ہی اڑنچھو ہو کر امریکہ پہنچ چکی تھیں کو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنانے کا موقع مل گیا ،گلالئی صاحبہ اس مقدمے کے بعدسے ’’لاپتہ ‘‘ تھیں اور ہمارے اداروں کو تب کچھ پتہ چلا جب وہ امریکہ میں طلوع ہوئیں خوشی ہے کہ ایسی باکمال کرشماتی شخصیت کی ذات سے لگے الزام کا یہ داغ جلد ہی چھٹ گیا اس پر اطمینان اپنی جگہ لیکن معزز عدالت کی جانب سے اشتعال انگیزی کو اظہار رائے کا حق قرار دینا ایک نیالانجہ ہے جلد یا بدیر ہمیںفیصلہ کرنا ہوگا کہ اظہار رائے کومد رپدر آزاد رکھناہے اسکی بھی کوئی حدبندی کرنی ہے یااب سب کو کھلی چھوٹ ہے !