چند روز گزرے اسلام آباد میں منرل سمٹ ہوئی۔اس سے پہلے فوڈ سکیورٹی پر ایک کانفرنس ہوئی۔مجھے ان دونوں شعبوں سے دلچسپی ہے ۔پرائمری جماعتوں میں پڑھے وہ اسباق یاد آگئے جن میں پڑھایا جاتا کہ پاکستان میں فولاد،نم،کوئلے،سونا ، چاندی اور دیگر بیش قیمت دھاتوں کے وسیع ذخائر ہیں۔کتابوں میں قدرتی گیس اور تیل کے بارے بھی بتایا جاتا۔ چھوٹا بھائی جمیل کچھ برس جہانگیر ترین کی ایک کمپنی میں کام کرتا رہا ہے۔اس کمپنی نے ایبٹ آباد کے پاس ماربل نکالنے کا کام کیا۔پتہ چلا سفید ہی نہیں کالا ماربل بھی نکلتا ہے۔ریکوڈک اور سینڈک منصوبوں کے بارے میں اتنا کچھ سنتے آئے ہیں کہ یقین ہو چکا ،ہماری حکومتیں نااہل تھیں۔ پاکستان کے پاس معدنیات اور قدرتی وسائل کے بے پناہ ذخائر ہیں جن میں کوئلہ، سونا، تانبا، باکسائٹ، معدنی نمک، کرومائٹ، لوہا اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان مختلف قسم کے قیمتی اور نیم قیمتی پتھر بشمول روبی، پکھراج اور زمرد کی کانیں رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ معدنی ذخائر بلوچستان میں ہیں، سندھ کوئلے کے ذخائر سے مالا مال ہے اور خیبر پختونخوا جواہرات سے مالا مال ہے۔ جوہری توانائی کے مقاصد میں استعمال ہونے والے تیل، گیس اور معدنیات کی کان کنی وفاقی حکومت کرتی ہے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے کی دو بڑی کانیں واقع ہیں۔ ریکوڈک کاپر،گولڈ ڈپازٹ۔ اسے عالمی سطح پر سونے کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ یہاں 992 سے 1,276 ٹن کے درمیان سونے کے ذخائر ہیں جن میں سے 255 ٹن ثابت شدہ ہیں جبکہ باقی کا اندازہ لگایا گیا ہے اور ذخائر کی نشاندہی کی گئی ہے۔پاکستان کے جنوب مشرقی حصے میں ہیروں کی موجودگی کے امکانات موجود ہیں۔ پاکستان کا معدنی شعبہ بے پناہ ذخائر اور تقابلی تجزئے کے باوجود دنیا کی معدنی منڈی سے بہت پیچھے ہے۔ ان معدنیات کی دریافت اور مارکیٹنگ میں خلاء موجود ہیں۔ نیشنل ریگولیٹری فریم ورک میں قومی معدنی پالیسی اور صوبائی کان کنی کی پالیسیوں کے درمیان بہت سی کڑیا گم ہیں۔ یہ نقص بیرونی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔معدنیات سے استفادے کی خاطر اہم انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ کان کنی کے لیے پرانی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اور پروسیسنگ بھی فرسودہ ہے۔ پاکستان میں کان کنی کی ویسٹ 45 فیصد تک کے بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں 75 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے ہم برآمدی معیار کی مصنوعات تیار کرنے سے قاصر ہیں اور ممکنہ زرمبادلہ سے محروم ہو رہے ہیں۔ معدنیات کے ساتھ دوسرا شعبہ جو پاکستان کو اقتصادی فوائد فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ زراعت ہے ۔ملک میں برآمدات کو سہارا دینے والی فصلیں کم ہو رہی ہیں۔کہیں منصوبہ بندی نہیں۔زراعت کو جدید بنانے پر توجہ دی گئی نہ ترقی یافتہ بیج لائے گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمسایہ ملکوں سے بہت پیچھے چلے گئے۔2021-22 کے دوران، کاشت شدہ رقبہ کم ہو کر 1,937 ہزار ہیکٹر (6.8 فیصد) رہ گیا جبکہ اس سے پچھلے سال 2,079 ہزار ہیکٹر تھا۔ کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کی 7.064 ملین گانٹھوں کے مقابلے 8.329 ملین گانٹھوں (17.9 فیصد) تک بڑھ گئی۔مالی سال 22 میں زرعی شعبے کی 4.4 فیصد نمو نہ صرف مالی سال 21 میں دیکھی گئی 3.5 فیصد سے زیادہ تھی بلکہ اس نے 3.5 فیصد کی ہدفی نمو کو بھی پار کیا۔ اس کی بڑی وجہ اہم فصلوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ اور لائیو سٹاک کے شعبے میں اضافہ تھا۔ زراعت کو تین اہم مسائل درپیش ہیں۔فصل کی پیداوار کا انتظام پاکستانی کسانوں کے لیے بہت سے چیلنج لاتا ہے، جن میں کھیتوں میں مٹی کی جانچ نہ ہونا ، کھادوں کی عدم دستیابی اور ناقص معیار، فصل کی کٹائی کے دوران نقصان، گوداموں، مشینری اور آلات کی کمی، اور سب سے بڑھ کر مٹی کی زرخیزی میں کمی آنا۔ زراعت میں معیشت کے دیگر شعبوں کی ترقی اور اس ترقی کو آگے بڑھانے کی صلاحیت ہے۔ملک میں زرعی پالیسیوں کے نام پر مذاق کیا گیا۔اس مذاق کا نتیجہ غذائی پیداوار میں کمی ، آٹا نایاب ہونے اور بھوک کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ زراعت کی صلاحیت کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے، پاکستان کو اس شعبے کو درپیش کئی کلیدی چیلنجوں پر قابو پانا ہوگا۔ سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک پانی کی کمی ہے جو کہ زرعی پیداوارکے بڑھنے میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ پانی کے انتظام کے بہتر طریقے، جیسا کہ ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات، اس مسئلے کو کم کرنے اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔حالیہ دنوں بارشوں اور دریاوں میں آنے والے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنیا کا انتظام ہوتا تو تباہی کی بجائے یہ رحمت بن سکتا تھا۔ آبپاشی کے جدید نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ڈرپ اریگیشن۔اس سے پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے اور یہ ضیاع کو کم کر سکتا ہے۔ زرعی شعبے کو درپیش ایک اور چیلنج جدید کاشتکاری کے طریقوں کا فقدان ہے جس میں اعلیٰ پیداوار والے بیجوں کی اقسام اور کھادوں کا استعمال شامل ہے۔ تحقیق اور ترقی پر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ کسانوں کے لیے قرض کی بہتر سہولیات اور تربیتی پروگراموں کی فراہمی سے اس مسئلے کو حل کرنے اور پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، جدید زرعی تکنیکوں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنا، جیسا کہ درست کاشتکاری، پیداواری صلاحیت بڑھانے، ویسٹ کو کم کرنے اور فصل کی پیداوار کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔آرمی چیف منرل اور زراعت کو ترقی دینے کے خواہاں ہیں ،حکومت کے لئے یہ منظم تعاون بہت بڑی مدد ہو سکتا ہے اگر درست انداز میں منصوبہ بندی کی جائے۔کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے کچھ خدشات ہیں جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔