قاضی حسین احمد امت اسلامیہ کا ایک عظیم سرمایہ تھے۔مرحوم کی وحدت اسلامیہ اور مسلمانوں کی سربلندی کے حوالے سے لائق تحسین کاوشیں ہمیشہ یادرکھیں جائیں گی۔ان کی وفات سے امت اسلامیہ بالخصوص پاکستان میںایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جس کو پر کرنا بلاشبہ مشکل نظر آرہا ہے۔پاکستان کے داخلی انتشار اور خلفشار کا معاملہ ہو یا کسی دوسرے مسلمان ملک کی دشوار گزارصورتحال دونوں حوالوں سے قاضی حسین احمدغمخواراور درد مند کی حیثیت سے سامنے آتے رہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر خوفناک صورتحال کے خاتمے اور مختلف مکاتب فکر کے مابین وحدت و ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے قاضی حسین احمد صاحب کی گراں قدر خدمات تھیں۔ عالمی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے قاضی حسین احمد کا کردار قابل رشک رہا۔روس کے خلاف انہوں نے افغان جہاد میں نہایت اہم کردار ادا کیا، اوراس دوران تمام جہادی یونٹوں سے ان کے روابط قائم رہے۔ کشمیرکاز،فلسطینی تحریک، چیچن کی جدوجہدآزادی ، ایران وعراق جنگ کے خاتمے اوربوسنیا ئی مسلمانوں کے قتل عام کا معاملہ ، قاضی حسین احمد مرحوم کی بے کلی ،تگ ودواورانکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ قاضی حسین احمد نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے قائدین اور علماء و مفکرین کوساتھ ملا کر اختلافات کو پاٹنے کی مسلسل کوششیںکیں۔ لیکن بدقسمتی سے صلح کا ہرمعاہدہ بیرونی سازشوں اور اندرونی بے اعتمادی کی نذر ہوگیا! قاضی حسین احمد نے پورے عالم میں امت کی توانائیوں کو یکجا کرنے کی امید میں ہمیشہ امت کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش کی ہے۔مرحوم نے پاکستان میںجماعت اسلامی کی سیاست کے فروغ اور حلقہ اثر کی توسیع میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ قاضی حسین احمد پاکستان میں اور دنیائے اسلام میں اسلامی انقلاب کے عملی داعی تھے اور پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی ان کی خواہش جنون کی حدوں کو چھوتی نظر آتی تھی ۔ جماعت اسلامی پاکستان میںقاضی حسین کا دورامارت پاکستان کی تاریخ کا ہنگامہ خیز اور متلاطم دورتھا۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مضطرب انسان تھے۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کے عہد میں جماعت کی قیادت سنبھالی اور مارچ 2009ء تک اس منصب پہ فائز رہے۔ سید مودودیؒاور میاں طفیل محمد ؒ جیسی قدآور شخصیات کے بعد جماعت کی امارت سنبھالنا کوئی سہل کام نہ تھا ،لیکن قاضی صاحب نے یہ ذمہ داری اس آن بان اورشان کے ساتھ نبھائی کہ ایک عالم ان کی صلاحیتوں کا معترف ٹھہرا! بلاشبہ ان کی جبیں اس سجدے سے آشنا تھی جو ہزار سجدوں سے نجات دلا دیتا ہے۔ جہاد افغانستان کی کامیابی نے عالم اسلام کے ہر خطے میں امید کے نئے دیے روشن کیے جہاد افغانستان کی برکت سے کشمیر کازمیں جان پڑگئی اور قاضی حسین احمد نے کشمیرکاز کی پشت پناہی کے فیصلے کے ساتھ کشمیرکاز کو پاکستان کی قومی یکجہتی کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر تجویز کرکے پوری قوم کو کشمیر کی پشت پر کھڑا کر دیا اور ان کی سفارش پر اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور حزب اختلاف کے رہنما میاں نواز شریف کو بیک وقت یوم یکجہتی کشمیر منانے کی تجویز دی جو انہوں نے تسلیم کرلی۔ اس کے بعد سے آج تک یوم یکجہتی کشمیر اہلِ پاکستان کے اتحاد اور یکجہتی کی علامت بن گئی ہے۔ قاضی حسین احمد تمام جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی وفد کے لیے عالم اسلام کے دورے پر گئے اور مسلمان ممالک کی قیادت اور عوام کو مسئلہ کشمیر سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ہی اہلِ پاکستان کو سرزمین یورپ کے واحد مسلمان اکثریتی ملک بوسنیا ہرزیگوونیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے پہلے مسلمان رہنما کی حیثیت سے بوسنیا کا دورہ کیا ۔ وہ نسلی، مسلکی، لسانی، علاقائی ، صوبائی اور جغرافیائی قومیتوں کے پرچارک اورعصبیت فروش سیاستدانوں کے جارح نقاد تھے۔ ان کے نزدیک مبنی بر عصبیت سیاست کسی بھی قوم کے شجر سلامتی کی جڑوں کے لیے دیمک کا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان ایک ایسے حریت شعار سیاسی مدبر سے محروم ہو گیا جو ہر نوع استعمار اور سامراج کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف زندگی بھر ذہن سازی کرتا رہا۔ ان کا وجود قحط الرجال کے اس عہد میں ایک نعمت غیر مترقبہ تھا! اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی طالبات کی شہادت اور لال مسجد میں آپریشن کے بعد قاضی حسین احمد''متحدہ مجلس عمل '' کے ارکان اسمبلی کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا چاہتے تھے لیکن ایم ایم اے میں اتفاق نہ ہوسکا جس کے باعث قاضی حسین احمد ذاتی حیثیت میں اسمبلی سے مستعفی ہوگئے ۔ نومبر2012 کے وسط میں انہوں نے اسلام آباد میں ایک کامیاب اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد کیا۔ان کی طرف سے جو چار نکات پیش کیے گئے ان میں باہمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا، خطبات جمعہ میں ہم آہنگی اور ان میں علمی گہرائی پیدا کرنا، اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور شدہ سفارشات کو نافذ کرنا اور آخر میں مختلف فقہ کے لوگوں کو قریب لانا اور ایسا ماحول پیدا کرنا کہ وہ اختلافات کو نظر انداز کریں اور مشترکات پر زور دیں، شامل تھے۔ قاضی حسین احمدجیسا کہ ایک دینی رہنما کو ہونا چاہیے کہ صاف دل اور صاف گو رہنما تھے جب کئی حلقوں سے جماعت اسلامی اور جنرل پرویز مشرف کے تعلقات کے حوالے سے اعتراض سامنے آیا تھا لیکن بطور امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمدنے پوری قوم سے معافی مانگی ۔امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ ''ہم نے جو قدم اٹھایا پوری ایمان داری سے اٹھایا پرویز مشرف نے پوری قوم کے سامنے ٹیلی وژن پر یہ وعدہ کیا کہ وہ دو عہدوں میں سے ایک سے دستبردار ہو جائیںگے ، ہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ وعدہ خلافی کریں گے لیکن انہوں نے ہمارے خیال کو غلط ثابت کیااس لیے ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے اس پر اعتماد کیا اس سلسلے میں ہم پوری پاکستانی قوم سے معافی مانگتے ہیں۔