پاکستان جدید وقدیم تاریخ کا واحد ملک ہے جس میں بددیانت اور کرپٹ حکمران ڈھٹائی کے ساتھ بدعنوانوں کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکال کر غریب کی بھوک مٹانے اور کشکول توڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اقتدارمیں آنے کے بعد غریب کے منہ سے نوالا چھیننے اور غیر ملکی قرض کی بندر بانٹ میں جت جاتے ہیں. میرے ملک کی تقدیر حکمرانوں کی بھوک سے عبارت ہے اوربھوک بھی ایسی کہ ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا۔ غریب فاقوں کے خوف سے اپنے بچوں سمیت خودکشی کر رہا ہے مگر اب بھی لندن اور دبئی کے محلوں میں بیٹھ کر کشکول توڑنے اور خود انحصاری کے ذریعے خود مختاری کا نعرہ لگایا جا رہا ہے اور نعرہ بھی وہ لگا رہے ہیں جنہوںنے اپنے16ماہ کے مختصر دور اقتدار میں 13ہزار 7 ارب روپے کا قرض لیا۔ کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے کی بڑ مارنے والوں نے ہر ماہ ایک ہزار ارب قرض لینے کے باوجود غریب کو بچوں کو زہر دینے اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے بجلی ہی کے کھمبوں پر خودکشی پر مجبور کر دیا۔قرض کہا ں گیااس کی خبر منصور آفاق نے اس شعر میں دی: پہنچنے والی ہے انگریز کی گرانٹ ابھی بچا جو دیس میں تھوڑا بہت ہے بانٹ ابھی نگران آج جب لوگوں کو خود کشی کرتے اور سڑکوں پر بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج کرتے دیکھتے ہیں تو بین کرتے آئی ایم ایف کی طرف بھاگتے ہیں پھر اپنا سا منہ لے کر پاکستانیوں کو ساہوکار کا حکم سناتے ہیں کہ قرض کی مئے پر فاقہ مستی بہت ہو چکی جو قرض لیا ہے واپس کرنا پڑے گا ۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023ء کے اختتام پر پاکستان کا قرض 60ہزار 839ارب تک پہنچ چکا ہے ۔ سیاست کے تجارت بنے کی دیر تھی کہ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ نواز شریف اور زرداری نے اپنے گزشتہ 10سال کے دور اقتدار میں 40.3ارب ڈالر قرض لیا جس میں زرداری نے 20ارب ڈالر او نواز شریف حکومت نے 34.1 ارب ڈالزقرض لیا جس کی ادائیگی کے لئے نگران حکومت کو بجلی کے بلوں میں ٹیکس لگانے کے لئے ’’ایکسٹرا‘‘ کا بہانہ ڈھونڈنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ظلم تو یہ بھی ہوا کہ سیاست کو منافع بخش کاروبار بنانے والوں نے صرف پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ہی نہیں لادا بلکہ قرضوں کی بندر بانٹ اور لندن، دبئی بی،لجم سمیت دنیا بھر میں جائیدادیں خریدنے کے لئے رقوم منتقل کرنے کے لئے اداروں کو استعمال کرنے کے لئے افسر شاہی کو شریک جرم بنایا۔واپڈا ،پی آئی اے، اور ریلوے کے محکمے جوقیام پاکستان کے بعد سے منافع کما رہے تھے تاجر سیاستدانوں کو اقتدار ملنے کے بعد قومی خزانے پر بوجھ بننا شروع ہوئے اداروں کی تباہی اور قومی خسارہ کم کرنے کا بہانہ بنا کر قومی اداروںکی فروخت کا جواز تراشا گیا مگر یہاں بھی قوم کے ساتھ ہاتھ کیا گیاکہ جو ادارے خسارے میں تھے ا نہیں بیچنے کے بجائے اپنے چہیتوں کو کوڑیوں کے بھائو فروخت کئے گئے ۔لندن اور پیرس میں محل بنانے اور لوٹ مار میں سہولت کاری کے لئے حصہ بقدرجثہ کے مصداق ہر کسی کو شریک جرم کرنے کوشش کی گئی۔ کسی کو مرسڈیز کی پیشکش ہوئی تو کسی کو ہیلی کاپٹر پر بریف کیس پہنچائے گئے۔قرضوں سے اشرافیہ کی بھوک نہ مٹ سکی تو ترقی کے نام پر کرپشن کے منصوبے بنائے گئے۔ ملک روشن کرنے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے نام پر آئی پی پیز کا ڈھونگ رچا کر اپنا حصہ کھرا کرنے کے لئے کیپسٹی پیمنٹ کی صورت میں لوٹ مار کا دروازہ کھولا گیا۔ اسی لوٹ مار کی وجہ سے جو بجلی بنی ہی نہیں اس کی ادائیگی کا حجم 2023ء تک 1.3ٹریلین روپے ہو چکا ہے۔ملک میں تقسیم کار کمپنیوں کے لائن لاسز کا حجم 520ارب روپے ہے جس میں 467ارب روپے کی بجلی چوری سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں تسلیم کی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں صرف بجلی کا خسارہ 2 ٹریلین کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ جو پاکستان میں وصول کیے گئے کل ٹیکس کا ایک چوتھائی کے الگ بھگ ہے۔ قومی ادارے کس طرح تباہ کئے گئے اس کی ایک مثال KESC، PTC اور KWSBکی نجکاری ہے۔ 1996ء میںخلاف کراچی کے شہریوں نے ایک گروپ ہیلپ لائن ٹرسٹ کے ساتھ مل سپریم کورٹ آف پاکستان میں مفاد عامہ کی درخواست دائر کی تھی جسٹس اجمل میاں کی عدالت میں کیس باقاعدہ سماعت کے لیے مقررہوا۔ عدالت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے، تقسیم کے نظام کی بحالی اور بہتری، لائن لاسز اور بجلی چوری میں کمی سے متعلق سفارشات کی منظوری دی ۔اگر ان تجاویز میں سے صرف 30 فیصد پر عمل ہوتا تو کے ای ایس سی یا پی ٹی سی کی نجکاری کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ مگر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سفارشات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تاکہ منافع بخش اداروں کواپنے چہیتوں کو فروخت کیا جا سکے ۔ عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں ہی یہ انکشاف ہوا تھا کہ کراچی میںفیصد90بجلی چوری میں صنعتکار اور اشرافیہ ملوث ہے صرف دس فیصد بجلی عام آدمی چوری کرتا ہے مگر چوری ہونے والی بجلی کی قیمت بل ادا کرنے والے صارفین سے وصول کرنے کے بعد باقی خسارہ دکھا دیا جاتا ہے۔آج آئی ایم ایف اس خسارے کو ختم کرنے کی شرط پر پروگرام جاری رکھنے پر اصرار کر تا ہے تو عوام سے ملک کی خاطر زبردستی قربانی مانگی جا تی ہے۔ حکمرانوں کی بھوک ہے کہ مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ دوبارہ لوٹنے کا موقع ملے اس کے لئے دلفریب نعرے اور دعوے گھڑے جا رہے ہیں وطن فروشوں کی ہٹ دھرمی دیکھئے ایک طرف عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا جا رہا ہے تو دوسری طرف قرض خواہوں کے قرض واپسی کے تقاضے پر بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ پاکستان معاشی تباہی کا ذمہ دار آئی ایم ایف ہے۔ ملک پر جو 60 ہزار ارب سے زائد قرضہ ہے اس میں آئی ایم ایف کا قرضہ آٹے میں نمک کے بھی برابر نہیں۔ معاشی تباہی کا اگر کوئی ذمہ دار ہے تووہ قرض لینے والے یا پھر ملکی تباہی پر خاموشی اختیار کرنے والے قومی ادارے اور پاکستانی قوم ہے اور ملک کو مسائل کی دلدل سے بھی پاکستانیوں نے ہی نکالنا ہے طریقہ بھی شاعر نے بتا دیا ہے: قانون کو نافذ کرو ہر ایک گلی پر تم قاتلوں کو اپنے قبائل سے نکالو منصور لٹیروں کو سرِعام دو پھانسی اب دیس کرپشن کی شمائل سے نکالو